تاریخ کے منجھدار میں

جاوید قاضی  اتوار 23 اکتوبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

تاریخ بھی ایک ڈگر کی مانند ہوتی ہے، وہ تو چلتی رہتی ہے حادثات و اتفاقات کا عکس بن کر، بے رحم، بظاہر بے سبب، مگر حقیقت میں وہ ان آپ بیتیوں کی کہانی ہوتی ہے۔ ایک لمبی داستان جو خود فرد کے وجود و لاشعور میں رہتی ہے، وہ تو آپ کے ڈی این اے میں بھی رہتی ہے، آپ کا وجود کا عکس بن کر۔

ایک منجھدار ہے تاریخ جو سندھو پر بہی ہے۔ ہڑپہ، ٹیکسلا، مہر گڑھ، موہن جو دڑو۔ وادی سندھ کا ذکر پہلے سکندر اعظم کی یونانی کتابوں میں آیا، دنیا و مغرب کے لیے، وہ اسے انڈس کہا کرتے تھے۔ ہزاروں برس کی گوناگوں وسعتوں سے مالا مال ہے میری تاریخ، کئی نشیب و فراز، لشکر، گھوڑوں کی ٹاپیں، ہجرت و آبادیاں، قحط و خوشحالیاں۔ یوں کرتے کرتے یہ تاریخ آج یہاں اسی موڑ سے گزر رہی ہے۔ اس انڈس پر اب کے بار اسے پاکستان لکھتے ہیں۔

پاکستان سے پہلے والے زمانوں میں ہندوستان کا وہ حصہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اس کی وجہ تھی، سارے حملے ہندوستان پر یا پانی پت کے میدان پر ہوئے، بلاخر جو دو دو ہاتھ ہوئے وہ سب اس جانب سے ان لشکرو ں کے آنے سے ہوئے جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے جو سینٹرل ایشیا سے آئے۔ ثمر قند، بخارا، خراساں اور آخر ایران کا بادشاہ نادر شاہ، محمد بن قاسم وغیرہ وغیرہ۔

ہم نے ہندوستان پر راج کیا تھا، تھے اقلیت مگر جنگجو تھے ہمارے اجداد، اور پھر ہماری طاقت کو للکارا، ایک نئی طاقت نے جو سمندری راستوں کے گوناگوں ہونے سے ابھرتی اور پھیلتی ہے۔ ہندوستان پر قبضہ کرتی ہے، راج کرتی ہے اور وہ مسلمانان ہندکو سکیڑ دیتی ہے، ان کے دور میں ہندو مڈل کلاس خوب بنی جس کا عکس تھی کانگریس۔ مسلمانوں کی قیادت کرتے رہے، نواب، رائے بہادر، زمیندار، سردار، وڈیرے۔ بنی تو تھی مسلمانوں کی مڈل کلاس مگر ہندو مڈل کلاس کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ اس کے کئی تاریخی و ثقافتی پہلو و اسباب ہیں۔

تاریخ لکھی نہیں جاتی، تاریخ بتائی جاتی ہے۔ یوں کہئے یہ کوئی لیلیٰ مجنوں کے قصے، کہانیاں، قصیدے نہیں ہیں یا کسی درباری کے جہاں عالم پناہ کی لیے لکھی باتیں نہیں ہیں۔ تاریخ ایک ٹھوس شواہدات پر مبنی حقیقت ہوتی ہے، جو آپ کا آئینہ ہوتی ہے۔ اسے مسخ کرنا سنگین جرم ہوتا ہے کہ اگر آپ اپنی تاریخ کو مسخ کرتے ہیں تو پھر آپ کی اپنی پہچان بھی نہیں رہتی، آپ کا جیسے حافظہ چھن جاتا ہے۔

آج کا یہ زماں و مکاں تبت سے چلتی سندھو کے دھارے پر، جس کا چھوڑ سمندر میں کراچی کے قریب ہوتا ہے، ہزاروں میل پھیلی سندھو اور اس کی تہذیب ہزاروں سالوں سے رواں، سیکڑوں ادوار سے گزرتی، حملہ آوروں سے روندی بھی گئی، بنتی اور اجڑتی بھی رہی اور اس موڑ سے بلاخر گزر رہی ہے، جہاں اس کے وجود کو خطرات ہیں، وہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنی بنائی شرفاء کی ماہیت سے، اس سیاست سے ہے جو ان شرفا نے اپنے مفادات کے لیے ترتیب دی۔ یہ جو تاریخ ہے اس زمین کی جو پاکستان کے بنتے بنتی ہے، وہ خود دنیا کا ایک نیا موڑ بھی تھا۔

دوسری جنگ عظیم نے دنیا کے نقشے پر گہرے نقوش چھوڑے، کئی سرحدیں بنی اور بگڑیں۔ وہ بیچارے کرد جو قوم تو تھے ریاست نہ بن سکے، اور ترکی، شام، عراق و ایران کے بیچ میں بٹ گئے۔ عرب ایک قوم، تہذیب تاریخ تو تھے مگر کئی ریاستوں میں بٹ گئے۔ پاکستان کے بننے میں بھی، برصغیر کے بٹوارے میں بھی ان عوامل کا عمل دخل ہے۔

انگریز جرمنی کو شکست تو دے بیٹھا مگر بہت کمزور بھی ہوگیا۔ اسے جلدی تھی جانے کی، وہ بٹوارہ صحیح طرح نہیں کر پایا، کشمیر کو ادھورا چھوڑ گیا۔ کانگریس بہت مضبوط پارٹی تھی اگر نہرو پندرہ سال وزیر اعظم نہیں بھی رہتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا مگر ہمارے پاس اس طرح نہ تھا۔ ہماری مسلم لیگ یہاں اپنی جڑیں نہ بنا پائی جو اس کی جڑیں اگر تھیں بھی تو اس طبقے میں تھیں جنھوں نے انگریزوں کی جی حضوری کی۔ نہ صنعتوں کا جال بچھ سکا نہ زمینی اصلاحات آئیں۔ نہ اسکولوں کا، صحت کے اداروں کا جال بچھ سکا۔

دوسری طرف آبادی بڑھتی رہی۔ اقتدار مخصوص طبقے کے پاس رہا اور اقتدار کا محور فوج رہی۔ انیس اور بیس کے فرق سے اس شرفا کہ طبقے میں ایک ایسا طبقہ ہے جو فوج کی مسلسل مداخلت چاہتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو فوج کی مداخلت نہیں چاہتا مگر اس سے سمجھوتہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

اسی طرح کرتے کرتے پچھتر سال گزر گئے ۔ شرفاء کے اس طبقے کے بیچ آپس میں گھمسان کی جنگ ہے۔ ایک چاہتا ہے کہ فوج مداخلت جاری رکھے اور ساتھ ساتھ صرف ان کے ساتھ جڑی رہے کسی اور کے ساتھ نہیں۔ بھلے اس ملک کو کتنا بھی کمزور کردیں۔

اس جنگ میں جو سب سے زیادہ نقصان ہوا، وہ ہماری معیشت کا تھا۔ بائیس کروڑ کی یہ قوم ایک سو ارب ڈالر کا ایکسپورٹ بھی نہ کر پائی، پاکستان نظریاتی ریاست تھا، اس کے لیے ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کیا، وہ جو وادی سندھ یا دوسرے الفاظ میں انڈس ویلی کی تاریخ تھی اسے اجاگر نہ کیا گیا۔ ہم نے اپنی تاریخ کوحملہ آوروں سے جوڑ دیا۔ وہ جو لٹیرے تھے انھیں اپنا ہیرو بنایا، بچوں کو کتابوں میں ہم نے وہ پڑھوایا۔

اب پلٹ پڑی ہیں، ساری داستانیں۔ وہ مسخ شدہ باتیں ، حقیقتیں ، کوئی بھی یہاں مذہب کو استعمال کرکے اربوں روپے بنا سکتا ہے، اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے۔ لوگوںکی فلاح و بہبود کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ اوپر سے ماحولیاتی تبدیلی دہلیز پر آن کھڑی ہے۔ غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

دوسری طرف دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت بڑے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب تیل و گیس کے استعمال سے نکل کر ہم شمسی توانائی کے ذرایع کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیا یہ ملک جس کی تاریخ انتہائی مسخ شدہ ہے، اسے بحران سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کررہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی بہت تیزی سے ہمارا پیچھا کررہی ہے۔ کیا ہم اس بحران سے نکل پائیں گے؟َ اس کے لیے میری گزارش یہی ہے جب تک یہ شرفاء اسی طرح موجود ہیں جب تک یہ شرفاء نہیں جاتے اور اس کا فطری نعم البدل نہیں نکلتا، بہت مشکل ہوگا ان حالات سے نکلنا ورنہ تبدیلی کی بات تو عمران خا ن نے بھی کی تھی۔

جو بھی ہمارا پرانا بیانیہ تھا، جسے کل ضیاء الحق نے استعمال کیا، بھٹو نے شیخ مجیب کے خلاف، اور نواز شریف نے بھی بے نظیر کے خلاف استعمال کیا، یہ بھی حقیقت ہے آج کی پیپلز پارٹی اور آج کی مسلم لیگ نواز شریف یا مریم نواز شریف کی قیادت میں اسے خیر آباد کہہ چکی ہے، جو خیر آباد نہیں کر رہا اور نہیں کرسکتا وہ عمران خان ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی بہت تیزی سے تاریخ ہوئے، اب وہ باتیں وہ بیانیہ لوگوں کو مانوس نہیں کرسکتا۔ بہت تیزی سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اگر یہ شرفاء اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتے یا اس کا نعم البدل نہیں نکلتا تو یقینا آگے ہمارے لیے بہت مشکل وقت آنے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔