ڈاکٹر علامہ اقبال؛ مسلمانوں کے ہیرو اور عظیم سیاستدان

شہریار شوکت  بدھ 9 نومبر 2022
آج کے نوجوان کو اقبال کی حقیقی شخصیت سے مکمل طور پر روشناس کرانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

آج کے نوجوان کو اقبال کی حقیقی شخصیت سے مکمل طور پر روشناس کرانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شخصیت میں کئی ایسے عناصر تھے جو انہیں اپنے دور کے شعرا، مفکرین اور اہل ادب سے ممتاز کرتے تھے۔

علامہ اقبال نے مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور مری کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ یہیں سے ان کے دل میں شعر و شاعری کا شوق بھی پیدا ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کی شخصیت کو سنوارنے اور بنانے، انہیں پروان چڑھانے میں ان دنیاوی تعلیمی اداروں کا ہاتھ تھا جن میں اقبال داخل ہوئے اور تعلیم حاصل کی تو غلط نہ ہوگا۔ اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ علوم جدید اور مغربی تعلیم کا حصول ہندوستان، انگلستان اور جرمنی میں ماہر اساتذہ سے کرتے رہے، اور وہاں کے علم و فن کے چشموں سے سیراب ہوتے رہے۔ مغربی فلسفہ، دین، قانون، تہذیب جدید علوم ہر ایک شعبے میں اقبال نے خود کو منوایا لیکن اقبال کو جو فضائل اور بلندیاں حاصل ہوئیں ان کا درس انہیں ان کے دل اور ضمیر نے ہی دیا۔ دل اور ضمیر کا مدرسہ ہر فرد ہی کی دسترس میں ہوتا ہے لیکن ان درس گاہوں سے روحانیت کا جو مقام اقبال نے حاصل کیا شاید ہی کسی کو ملا ہو۔

علامہ اقبال کی شاعری جہاں سوئی قوم کو جگانے کا کام کرگئی، رب کے بندوں کو اس کی یاد دلا گئی، وہیں اس شاعری نے بچوں کی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بچوں کےلیے بھی بہت سی نظمیں لکھیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاً مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔ کبھی بچے کی دعا کہہ گئے، جو ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔

اقبال نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں بھی گہری دلچسپی لی، اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں کو خودی سے روشناس کرایا اور انہیں ان کی اہمیت کا احساس دلایا۔ یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے، تاہم 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ پھر ان کا رجحان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے۔

اقبال ہی وہ عظیم انسان ہیں جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ اور آزاد ریاست کا خواب دکھایا۔ 1922 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس دور میں اقبال کو ’’شکوہ‘‘ پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال روحانیت کے جس مقام پر تھے عام آدمی انہیں سمجھ نہ پایا اور جب اہل برصغیر کو سمجھ آئی تو ’شکوہ‘، ’جواب شکوہ‘ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوئی۔ اقبال کی اس تحریر نے تبلیغ کا کام کیا اور مسلمانوں کو اپنے رب کے قریب تر کردیا۔

علامہ اقبال جب پنجاب مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو حقیقی منزل کی جانب گامزن کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے آزادی کے بعد ہندو حکومت کے زیر اثر رہنے کے بجائے آزاد مسلم ریاست کے قیام کا خواب دیکھا اور اسی ایجنڈے پر مسلمانوں کو جمع کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اقبال اس دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قریب تر ہوگئے۔ انہوں نے قوم کی بیداری کا بیڑا اٹھا لیا اور ان کے دلوں میں پوشیدہ انقلاب کو ظاہر کرنے کےلیے اپنی شاعری کا سہارا لیا۔

اقبال صرف قوم کو بیدار کرنا نہیں چاہتے تھے وہ مسلمانوں کو اپنے رب کے قریب بھی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو دعا کا سہارا لینا اور رب سے مانگنے کا ڈھنگ بھی سکھایا۔

یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کر تڑپا دے
پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

اقبال کی شاعری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو جہاں ایک طرف یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری قومیت اور لسانیت کے رنگ سے بالاتر ہوکر تمام انسانیت کو بلندیوں پر لے جانے اور محبت کا درس اپنے اندر رکھتی ہے، وہیں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ اسلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ ایک سچے عاشق رسول اور اسلام پسند انسان تھے۔ انہوں نے اپنے کلام میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم، ان کی آل اور ان کے صحابہ سے محبت کا بھی جابجا اظہار کیا۔

اقبال سے قبل اردو ادب میں خودی کو تکبر یا غرور کے معنوں میں استعمال کیا جاتا تھا، اقبال کی شاعری کا خاصا یہ بھی تھا کہ انہوں نے خودی کو تکبر یا غرور کے معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک خودی احساس غیرت مندی، جذبہ خودداری اور اپنی انا کو شکست دے کر منازل حاصل کرنے کا نام تھا۔

اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کی شاعری صرف ان کے دور تک محدود نہ تھی بلکہ اگر آج کا انسان بالخصوص نوجوان بھی ان کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ کرلے تو شاید اپنے آپ کو اور اپنے مقصد حیات کو باآسانی پہچان لے۔

اسے سازش کہیں یا اس دور کے انسان کی لاپرواہی، آج کے نوجوان کو اقبال کی شخصیت سے روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ اگر اقبال کا تعارف کہیں کرایا بھی جارہا ہے تو صرف شاعر مشرق کے طور پر انہیں نوجوان نسل سے روشناس کرایا جارہا ہے جبکہ ان کی شخصیت صرف اس ایک لقب تک محدود نہیں، ان کا کردار انتہائی وسیع ہے۔ وہ پاکستان کا تصور دینے والے عظیم مسلمان لیڈر، ایک عظیم سیاست دان، روحانیت کے اعلیٰ منصب پر فائز سچے عاشق رسول، ایک انقلابی شاعر، مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ اگر آج ہم اپنے نوجوانوں کو اقبال کے شاہین کے مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اقبال کی حقیقی شخصیت سے مکمل طور پر روشناس کرانا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔