قادر آباد؛ قدیم عمارتوں والا خوبصورت مقام

شہریار شوکت  منگل 13 دسمبر 2022
دلوں کو بھا جانے والے یہ تاریخی ورثے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دلوں کو بھا جانے والے یہ تاریخی ورثے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں ایسے کئی مقامات موجود ہیں جن پر حکومت توجہ دے تو سیاحت کے ذریعے کثیر رقم حاصل ہوسکتی ہے، جس سے اس علاقے کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں اور ملکی خزانے کو بھی فائدہ پہنچے، لیکن کنڈ ملیر ہو، ملیر مندر، چوکنڈی کے مقابر یا پھر کوئی اور علاقہ، سب ہی کرپشن کی نذر اور حکومتی بے حسی کی مثال ہیں۔

سندھ بھر کی سیر کرنے کے بعد مجھے لگتا تھا کہ شاید ایسا بس یہیں ہے کہ دلوں کو بھا جانے والے یہ تاریخی ورثے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں لیکن ملک بھر کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا ایک جیسا حال ہے۔ سندھ ہو، خیبرپختونخوا یا پھر پنجاب اور بلوچستان، ہر صوبے کے تاریخی مقامات حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔

گزشتہ دنوں سرد موسم میں خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن جانے کا اتفاق ہوا۔ گائیڈ کا اصرار تھا کہ مانسہرہ سے آگے ایک علاقہ قادر آباد کے نام سے ہے، وہاں جایا جائے۔ اگرچہ یہ علاقہ مانسہرہ سے کافی آگے اور پہاڑی سلسلہ تھا لہٰذا سرد موسم میں یہاں جانا آسان نہ تھا۔ رہبر نے اس علاقے کی خوبیوں کے ساتھ مسائل سے بھی آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ سی پیک کے باعث اب سفر مختصر اور آسان ہوگیا ہے لہٰذا یہاں آکر اس علاقے کو دیکھے بغیر نہ جایا جائے۔

اسلام آباد سے 93 کلومیٹر شمال کی جانب سفر کیا جائے تو ہزارہ ڈویژن کا علاقہ آہل آتا ہے۔ اس علاقے میں مختلف اقوام آباد ہیں لیکن یہاں اکثریت سواتی قبائل کی ہے۔ سواتی قوم کا تعلق سوات سے ہی ہے، انگریزوں کے دور میں یہ افراد سوات سے ہزارہ منتقل ہوئے۔ اس قبیلے کے لوگ اب بھی ہزارہ کے سب سے بڑے زمیندار تصور کیے جاتے ہیں۔ سواتی قبیلے کی چار شاخیں ہیں۔ ان ہی میں سے ایک شاخ ارغوشال قبیلے کے بزرگ قادر خان آہل کی اگلی پٹی پر ایک گاؤں تعمیر کیا جہاں ان کے بھائی اور بچے آباد ہوئے۔ اس گاؤں کا نام پہلے کچھ اور تھا لیکن اب اسے قادرآباد کا نام دے دیا گیا ہے۔ ان بزرگ کی قدیم قبر بھی اصل حالت میں یہاں موجود ہے۔

اس گاؤں کی اہم بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر پہاڑی علاقہ تھا، اس وقت جب مشینری یا توڑ پھوڑ کے بڑے اوزار نہ ہوا کرتے تھے تب یہاں پہاڑوں کو کاٹ کر اونچے اونچے مقامات پر گھر تعمیر کیے گئے۔ جس مقام کو اب ہجرہ قادر آباد کا نام دیا گیا ہے وہ زمین سے کافی بلندی پر تعمیر ہے، جسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس دور میں کس طرح ان پہاڑوں کو کاٹ کر یہاں تعمیرات کی گئیں، کس طرح ان مقامات تک پانی کو پہنچایا گیا اور سیوریج کا نظام بھی بنایا گیا۔ اگرچہ اب یہ تعمیرشدہ مکانات پرانی حالت میں یا کچے نہیں رہے ہیں، لیکن اب بھی پرانے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔

اس مقام کے چاروں طرف گھنے جنگلات اور برف سے ڈھکے پہاڑ ہیں جو یہاں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ قادرآباد کے قریب ہی ایک عمارت ہے جسے ڈاک بنگلہ کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کے متعلق علم ہوا کہ یہ 400 سال قدیم عمارت ہے۔ انگریز اپنے وقتوں میں یہاں سے مختلف امور کی نگرانی کیا کرتے تھے۔ 2005 میں آنے والے زلزلے میں اس عمارت کو بہت نقصان پہنچا تھا جسے بعد میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آس پاس کے افراد نے پہاڑوں پر گھر بنائے ہوئے ہیں جہاں تک پکے روڈ جاتے ہیں جو پاکستان کے بڑے شہروں سے اب بھی بہتر حالت میں ہیں۔

قادرآباد کی پچھلی جانب پیدل سفر کیا جائے تو وہاں ایک قبرستان ہے۔ گاؤں کے لوگ اس مقام کو شہر کا نام دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بڑے گھر اور چند ایک دکانیں موجود ہیں۔ اس قبرستان میں موجود قبریں انتہائی پرانے ڈیزائن کی ہیں جن کہ متعلق یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قبرستان 150 سال پرانا ہے۔

ان علاقوں میں اب خاصی ترقی ہوگئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ علاقہ مانسہرہ جیسے شہروں سے اب بھی خاصے فاصلے پر ہے اس کے باوجود یہاں تعلیم کی شرح انتہائی زیادہ ہے اور یہ اب سے نہیں بلکہ پرانے وقتوں سے ہے۔ یہاں کے گورنمنٹ ہائی اسکول کی عمارت بھی دیکھنے کے قابل ہے جبکہ نجی اسکول بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ گلگت ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس بیرسٹر زینت خان کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا، جن کے نام سے یہاں ایک سڑک بھی ہے۔

تاریخی قبرستان، قدیم عمارتوں، سنگ تراشی کے عظیم فن، جنگلی حیات سے بھرپور خوبصورت جنگلات اور قدرت کے حسین مناظر سے آراستہ اس علاقے کی جانب اگر حکومت سیاحوں کی توجہ دلائے تو سرد موسم میں یہ علاقہ مری سے زیادہ اہم ثابت ہوگا۔ پاکستان میں نجانے ایسے کتنے علاقے اور شاہکار موجود ہیں جن کی تلاش میں ہم گھوم رہے ہیں۔ حکمران باہمی لڑائیوں کے بجائے ایسے علاقوں میں سیاحت کے فروغ پر توجہ دیں تو ملک کے حالات بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔