خراب معیشت کی بحالی

عبد الحمید  جمعـء 23 دسمبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

اچھی حکومتیں اپنے عوام پر اعتماد کرتی ہیں۔ قومی سلامتی سے جڑی کچھ انتہائی حساس معلومات کو چھوڑ کر باقی سب کچھ عوام سے شیئر کرتی ہیں۔

اس سے عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے اور عوام حکومت کے حق میں ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں کسی بھی حکومت نے عوام کے ساتھ وہ رشتہ نہیں رکھا۔کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت خراب ہے لیکن عوام کو صحیح صورتحال کا علم نہیں۔ معیشت اگر مضبوط ہو تو کاروبار پھلتا پھولتا ہے۔ روزگارکے مواقع دوچند ہو جاتے ہیں۔

حکومت سبسڈی دے کر ضروری اشیائے صرف کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ میں رکھ پاتی ہے۔معیشت مضبوط ہو تو امن و امان قائم رکھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ روزگار کے وافر مواقع موجود ہوں تو شرپسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔عوام سکھ کا سانس لیتے ہیں۔

مضبوط معیشت اور مضبوط دفاع آزاد خارجہ پالیسی کے ضامن بنتے ہیں۔دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے وسائل مہیا ہوتے ہیں۔ معیشت مضبوط ہو تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ریسرچ پر وسائل لگائے جا سکتے ہیں۔

ریاست ایسے اقدامات سے مضبوط ہوتی ہے۔ بین الاقوامی میدان میں ملک کا وقار بلند ہوتا ہے۔ہر ملک آپ کے ساتھ تعلقات بنانے کامتمنی ہوتا ہے۔صنعت و حرفت کے میدان میں پروڈکشن بڑھتی ہے۔ملک کے لوگوں کا رہن سہن، عزت اور معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے۔معاشرہ مضبوط اور خوش حال ہو تو آرٹ اور ادب میں تنوع کے ساتھ نکھار آتا ہے۔

ہم اپنے ملک سے اتنا ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر اس کے ناکام ریاست اور دیوالیہ ہونے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ ہما ری ہر اپوزیشن یہ تاثر دے رہی ہوتی ہے کہ خدا ناخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو گیا ہے۔

ایسی محبت شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔پی ڈی ایم جب اپوزیشن میں تھی تو یہی راگ الاپ رہی تھی اور جناب عمران خان اور ان کی پارٹی کہہ رہی تھی کہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اب پی ٹی آئی دیوالیہ دیوالیہ کا ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہے۔

جناب عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اسٹیٹ بینک کو وہ خود مختاری مل چکی ہے جس کا تصور ہی محال ہے۔دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ریاست کے اثر سے یوں مرکزی بینک کو آزادی ملی ہو۔پی ٹی آئی کی حکومت جاتے ہی جناب عمران خان اور ان کی ٹیم نے ڈومز ڈے کا منظر پینٹ کرنا شروع کر دیا۔یہ کبھی نہیں کہا کہ اس صورتحال میں ہماری نااہل ٹیم کا بھی بڑا حصہ ہے۔

اپریل کے پہلے ہفتے میں ہمارے فارن ریزرو کل ساڑھے دس کروڑ تھے اور اس مالیاتی سال میں21ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہونی تھیں۔ آپ اپریل،مئی میں پی ٹی آئی بیانات دیکھ لیں،کہا جا رہا ہو گا کہ ملک ڈوب رہا ہے۔

اگر کسی شادی کے اگلے ہی مہینے بچہ پیدا ہو جائے تو صاف ظاہر ہے کہ بچہ پہلے سے پیٹ میں تھا۔پی ڈی ایم نے بھی حکومت سنبھالنے سے پہلے قوم کو گہرے کالے بادلوں سے آگاہ نہیں کیا۔جناب شہباز شریف صاحب نے منتخب ہوتے ہی قومی اسمبلی میں دعویٰ کر دیا کہ دیکھا ہمارے آنے سے ہی ڈالر کیسے نیچے آ رہا ہے لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔جناب اسحٰق ڈار نے بھی پاکستان پہنچتے ہی بڑے بڑے دعوے کر دیے لیکن عملی طور پر ڈالر اور افراطِ زر بے قابو رہے۔

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سے ڈالر افغانستان اسمگل کیا جا رہا ہے تاکہ افغانستان ڈالر میں ادائیگیاں کرنے کے قابل رہے۔گویا پاکستان کی معیشت بے شک دگر گوں رہے لیکن افغانستان ادائیگیوں کے قابل رہے، چاہے وہ کابل میں ہمارے سفیر پر حملہ کروائے اور چاہے تو چمن بارڈر پر پاکستانیوں کو فائرنگ کر کے بھون دے ۔

پاکستان میں ڈالر کی قلت اور بڑھتی قیمت کی وجہ سے کسی شے کی قیمت مستحکم نہیں ہے۔سیب اور پیاز ایک بھاؤ بک رہے ہیں اور حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت میں شامل اکثرزعماء کو عدالتوں میں اپنے کیسوں کی فکر ہے۔کسی کو بھی پاکستان اور معیشت کی فکر نہیں۔پاکستانی روپیہ کی گرتی قدر سے پاکستان پر بیرونی قرضون کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔جو اشیاء پاکستان میں باہر سے آتی ہیں، ان کو منگوانے میں شدید دقت ہے۔ایل سِیز نہ کھلنے کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹرانسپورٹ اور مشینری کے لیے پہلے ہم جاپان کی منڈی تھی اور اس میں جنوبیکوریا اور چین میں شامل ہو گئے ہیں۔ہماری افغان پالیسی جمود اور مالخولیا کا شکار ہے۔ہمیں فوری طور پر اپنی افغان پالیسی کو پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس میں ڈسکس کر کے ریویو کرنے کی ضرورت ہے۔ چالیس سال پہلے جو افغان پالیسی تھی،آج بھی وہی ہے جب کہ دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔

معیشت کا مضبوط دفاع سے بہت گہرا تعلق ہے۔دفاع میں اچھے ہتھیار کی خریداری،ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور مشقیں کرتے رہنا بہت فائدے مند ہوتا ہے۔

اگر پیسے نہیں تو اچھے دفاعی ہتھیاروں کی خریداری کیسے ہو گی۔ریسرچ اور ڈویلپمنٹ تو ہے ہی مہنگا سودا،اس پر خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔ اگر پیسے نہیں تو یہ مشکل اور مہنگا لیکن انتہائی ضروری کام کیسے ہو گا۔اسی طرح وار مشین کو ہر دم تیار رکھنے کے لیے مسلسل مشقیں کرتے رہنا اشد ضروری ہو تا ہے۔اگر پیسے نہیں ہوں گے تو مسلسل تیار ی میں کیسے رہا جائے گا۔ہمارے ایک طرف مشرق میں بہت عیار دشمن ہے جو کوئی بھی موقع نہیں گنوائے گا۔

شمال مغرب میں افغانستان نے پاکستان کا ناک میں دم کیا ہوا ہے اور پاکستان کے لیے بھارت سے بھی بڑھ کر مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ ہمیں ہردم چوکس اور تیار رہنا ہے، اس کے لیے مضبوط معیشت اور مضبوط دفاع لازم و ملزوم ہیں۔

2022کی مون سون میں ہونے والی شدید بارشوں سے سندھ،بلوچستان کے اکثر علاقے اور پنجاب،خیبر پختون خواہ کے کچھ علاقے خاصے متاثر ہوئے۔اس سیلاب نے ہماری معیشت پر دور رس منفی اثرات چھوڑے ہیں۔

کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، سڑکیں بہہ گئی ہیں،پُل ٹوٹ گئے ہیں اور بلوچستان میں کئی ڈیم سیلاب کی زد میں آ کر مٹ گئے ہیں۔ کھڑی فصلوں کی تباہی سے اناج،سبزی اور پھلوں کی بہت کمی واقع ہوئی ہے۔پانی کے کھڑے رہنے سے پچھلی فصل تباہ ہو گئی ہے اور اگلی فصل کی بجائی ممکن نہیں اس لیے اگلے چھ مہینے بھی اجناس کی شدید قلت متوقع ہے۔

کسانوں اور مزارعوں کی روٹی روزی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔اجناس کی خریداری کے لیے قیمتی زرِ مبادلہ خرچ کرنا ہو گا، سڑکیں،پل اور ڈیم دوبارہ تعمیر کرنے یا ان کی مرمت کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہے۔ہماری انرجی پالیسی انتہائی ناقص ہے جس سے بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کی وقتی کیش فلو مشکلات کو دور کرتا ہے۔اسے ایسا ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا کہ وہ کسی ملک کی لانگ ٹرم اور مستقل کیش فلو مشکلات میں مدد کر سکے۔ہم 23ویں بار آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔ یہ کام ہم نے خود ہی کرنا ہے اور ہم اس کے لیے تیار نہیں اور شاید اس کی اہلیت سے بھی عاری ہیں۔

معیشت بہتر کرنے کے لیے بنیادی بات چادر کے مطابق پاؤں پھیلانا ہے۔ہم اتنے نا عاقبت اندیش،غیر ذمہ وار اور فضول خرچ ہیں کہ ایک روپیہ آمدنی کر کے فی الوقت دو روپے ستر پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ آبادی کم کرنی ہو گی۔

امپورٹ بل کم کرنا ہے،پٹرول کی کچھ عرصے کے لیے راشننگ کرنی ہو گی،غیر ضروری اشیاء کی درآمد بالکل بند کرنی ہو گی،افغانستان کی ذمے داری سے جان چھڑانی ہو گی،عوام کو سچ بتا کر معیشت کی بحالی کے لیے قربانیاں دینے پر تیار کرنا ہو گا۔

ہمارا گروتھ ماڈل غلط ہے۔ہم ایکسپورٹ پروموشن نہیں کرتے،امپورٹ substituitionکرتے ہیں۔ترقی ایکسپورٹ پروموشن سے ہوتی ہے۔ صرف ان افراد،اداروں اور کمپنیوں کو امپورٹ کی اجازت ہونی چاہیے جو ایکسپورٹ کر رہے ہوں۔خدا کرے کہ ہم سچے اور کھرے بنیں، اچھے اور ضروری اقدات اُٹھا کر بھنور میں پھنسی ناؤ کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ان سب باتوں کے لیے صحیح فیصلے ،قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام بہت لازم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔