سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے بعض شہروں کو جدید بنانے کے لیے کوشاں ہیں ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا کے سب سے بڑے مقدس شہر ہونے کے ساتھ دنیاوی لحاظ سے جدید شہر بھی ہیں جہاں دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آتے جاتے رہتے ہیں اور حج کے موقع پر مکہ معظمہ سے باہر لاکھوں حاجیوں کا جو منظم اجتماع ہوتا ہے وہ انتہائی مثالی ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں ہونے والے مذہبی اجتماعات میں سب سے بڑا اجتماع ہے جس کو منظم طور پر سنبھالنے کا سہرا بلاشبہ سعودی عرب کے سر ہے جو اپنے موثر اقدامات سے ہر سال لاکھوں حاجیوں کی بہترین دیکھ بھال اور انھیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا آ رہا ہے اور جس طرح حج اور عمرے پر آنے والے زائرین کی تعداد بڑھ رہی ہے، اسی حساب سے سعودی حکومت مستقبل کی منصوبہ بندی سالوں پہلے کر لیتی ہے تاکہ آنے والے سالوں میں زائرین کو مشکلات پیش نہ آئیں اور انھیں ایسی ہی سہولیات میسر آئیں جو انھیں آج حاصل ہیں۔
مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر رہائشی ہوٹلوں کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور سرکاری کے علاوہ دنیا بھر سے مالی وسائل رکھنے والے لاکھوں افراد ہوٹلوں میں رہائش چاہتے ہیں جب کہ سال 2025 کے آخری مہینوں میں عمرہ ادائیگی کے لیے آنے والوں کو رہائشی ہوٹل مشکل سے دستیاب ہو رہے ہیں اور انھیں اپنے مطلوبہ ہوٹل پہنچ کر بھی گھنٹوں کمرے خالی ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور رش کے باعث مدینہ میں بھی یہی رہائشی صورت حال پیش آ رہی ہے۔ مکہ مکرمہ میں رہائشی ضروریات مدینہ سے زیادہ ہیں، اس لیے مکہ کی انتظامیہ نے پرانے اور کم منزلہ ہوٹلوں کی جگہ نئے اونچے اور خوبصورت ہوٹل بنوانے پر توجہ دی ہے جس کے نتیجے میں بے شمار پرانے ہوٹل منہدم ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے موجودہ ہوٹلوں میں کرائے بڑھ گئے ہیں جن کی دوبارہ تعمیر میں وقت لگے گا اور وہ پچاس ساٹھ سے بھی زیادہ منزلہ ہوں گے جس کے بعد ہوٹلوں کی کمی کسی حد تک پوری ہو جانے کی توقع ہے جو جدید و خوبصورت بھی ہوں گے۔
حج پر سرکاری طور آنے والے ہر ملک نے اپنے لوگوں کے لیے سرکاری طور پر انتظامات کر رکھے ہیں مگر بدقسمتی سے اس سلسلے میں پاکستان کے انتظامات ناکافی اور بدنظمی کے علاوہ کرپشن کا شکار بھی رہتے ہیں اور بھارت کے مقابلے میں سستے اور مثالی بھی نہیں ہوتے جن کی خبریں ہر سال میڈیا کو ملتی ہیں۔ یوں تو مکہ اور مدینہ میں اور دونوں شہروں کی زیارتوں پر مسلم ممالک سے جو عمرہ عازمین آتے ہیں وہ سرکاری طور پر حج کی طرح نہیں بلکہ اپنے طور پر ٹریول ایجنٹوں کے ذریعے آتے ہیں۔
جنھیں یہ ایجنٹ اپنا اپنا پیکیج دیتے ہیں مگر انھیں پاکستانی ہونے کی کوئی شناخت نہیں دیتے بس انھیں جوتے رکھنے کے تھیلے اور پاسپورٹ اور نقدی رکھنے کے لیے پیٹ پر باندھنے کے لیے جو بیگ دیتے ہیں ان پر ٹریولز ایجنٹوں کے اپنے نام لکھے ہوتے ہیں یا چھوٹا سا قومی پرچم بنا ہوتا ہے جب کہ دیگر مسلم ممالک سے جو عازمین عمرہ ادائیگی کے لیے آتے ہیں، ان کے ممالک کی شناخت واضح ہوتی ہے جن کے لباس پر ان کے ملک کا مفلر، اسکارف یا کوئی اور نشانی واضح ہوتی ہے جس سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ کس ملک سے آئے ہیں اور وہ خانہ کعبہ کے طواف اور صفہ و مروہ کی سعی میں اکٹھے ہو کر گروپ کی صورت میں چلتے ہیں جنھیں ان کے مقررہ گائیڈ مذکورہ دعائیں پڑھواتے اور یاد کراتے ہیں کہ انھیں طواف اور سعی کے دوران کیا پڑھنا ہے اور وہ ساتھ ساتھ پڑھاتے ہیں، سب خواتین و مرد ساتھ رہتے ہیں جس سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور ان کے برعکس پاکستانی عمرہ زائرین ہوائی اڈوں پر اپنے گائیڈ کے اس وقت تک ساتھ ہوتے ہیں جب تک انھیں ان کے مقررہ ہوٹلوں تک نہیں پہنچا دیا جاتا جس کے بعد وہ خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ مرضی سے عمرہ ادائیگی کے لیے انفرادی طور پر جاتے اور بعد میں اپنی مرضی سے خریداری اور خور و نوش کرتے ہیں اور انھیں پیکیج کے تحت بسوں کے ذریعے زیارتوں پر لے جایا جاتا ہے اس وقت ہی وہ اکٹھے نظر آتے ہیں اور بعد میں اپنی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں جس سے ان کی پاکستانی شناخت کا پتا ہی نہیں چلتا اور وہ خود کو گائیڈ کا پابند بھی نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے ان کے گائیڈ بھی انھیں من مانی کے لیے آزاد چھوڑ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جب کہ دیگر مسلم ممالک اور بھارت تک کے عمرہ زائرین اکٹھے اور اپنی ملکی شناخت کے ساتھ اپنے گائیڈ کی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
عمرہ پر جانے والوں کی حج پر جانے والوں کی طرح کوئی خاص تربیت نہیں ہوتی اور انھیں علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھنا ہے۔ زیادہ تر وقت اپنے موبائلوں سے وڈیوز اور تصاویر بناتے رہتے ہیں۔ مکہ و مدینہ اور زیارتوں کی مکمل معلومات رکھنے والے اٹھارہ سال سے زائرین کو گائیڈ کرنے والے ایک تجربہ کار قاری محمد شبیر نے بتایا کہ عمرے اور حج پر آنے والے حضرات حرمین شریفین آ تو جاتے ہیں مگر اکثر کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حج و عمرے کے فرائض کیسے ادا کریں۔ خاص کر عمرے پر آنے والوں کے پاس عبادتوں، طواف اور صفہ و مروہ کی سعی کرنے کی معلومات بالکل ہی نہیں ہوتی اور اکثر کو دعائیں بھی نہیں آتیں جب کہ طواف اور صفہ و مروہ کی مخصوص دعائیں ہیں جن کا یاد کرنا لازمی ہوتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ وہ ان تاریخی و مذہبی مقامات اور زیارتوں کی تاریخ سے عازمین کو بسوں میں ہی بتاتے ہیں کہ غسل کا طریقہ، مقدس مقامات کی مکمل تفصیلات اور ان کی تفصیلات سے آگاہی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے معلومات فراہم کرتے ہیں کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکہ و مدینہ اور طائف کے پہاڑوں کے دشوار گزار راستوں پر چل کر ہمارے نبیؐ نے کتنی تکالیف برداشت کرکے اسلام کی تعلیم پہنچائی تھی اور کفار نے ان کی راہ میں کون سی رکاوٹیں ڈالیں اور اسلام کس طرح پھیلایا اور جانی و مالی قربانیاں دی گئی تھیں۔ زیارات کی معلومات حاصل کرکے ہی عازمین جان پاتے ہیں کہ ہمارے نبی اور صحابہ کرام پرکیا گزری تھی۔ اب زیارتوں پر آنے جانے کے لیے پہاڑوں کے درمیان سے وسیع سڑکیں بن چکی ہیں اور وہاں جانا آسان ہو چکا ہے۔ خانہ کعبہ جانے والے دروازوں پرگیٹ نمبر درج ہیں ، مدینہ میں مسجد نبوی کے وسیع لان میں لگی چھتریوں کے پولز پر اگر نمبر لکھ دیے جائیں تو بچھڑ جانے والوں کو سہولت ہو سکتی ہے۔
مکہ کے بعد سرکاری طور پر عازمین کے لیے آب زم زم فراہم ہوتا ہے جو دونوں جگہ خانہ کعبہ کی عمارت اور مسجد نبوی مدینہ میں بڑے بڑے کولروں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کے اور مسجد نبوی کے بڑے بڑے صحنوں میں ٹھنڈے پانی کے کولر نصب ہیں جن میں اکثر پر کچھ تحریر نہیں ہوتا اور لوگ ٹھنڈے پانی کو آب زم زم سمجھ کر بوتلوں میں لاعلمی میں بھر کر لے جاتے ہیں اور انھیں وہاں بوتلیں بھرنے سے اس لیے نہیں روکا جاتا کہ وہ ٹھنڈا پانی ہوتا ہے آب زم زم نہیں ہوتا۔
سعودیہ میں پانی مہنگا اور پٹرول سستا ہے اور حرمین میں ٹھنڈے پانی کے کولر بڑی نعمت ہیں۔ مکہ و مدینہ سے واپسی پر تبرک کے طور پر آب زم زم سرکاری نرخ پر مل جاتا ہے مگر کھجوروں کی فروخت سرکاری نہیں، اس لیے دکانوں کے نرخ مختلف اور عازمین کو کھجوریں مختلف بھاؤ میں ملتی ہیں۔