ساتویں خانہ ومردم شماری اگلے ماہ شروع ہوجائے گی

رزاق ابڑوٍ  جمعرات 26 جنوری 2023
شناختی کارڈ کا خانہ نہ ہونے پر ایاز پلیجو کا اعتراض بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے مسترد کردیا
 فوٹو : فائل

شناختی کارڈ کا خانہ نہ ہونے پر ایاز پلیجو کا اعتراض بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے مسترد کردیا فوٹو : فائل

 کراچی: ملک بھرمیں ساتویں مردم شماری وخانہ شماری کا عمل فروری سے شروع ہوجائے گا۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ مردم شماری ڈیجیٹل طور پر کرائی جائے گی، جس میں عوام کو خودشماری یعنی اپنے متعلق معلومات کو خود ہی درج کرنے کی سہولت بھی دستیاب ہوگی۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے فوکل پرسن محمد سرورگوندل کے مطابق فروری کے دوران خودشماری کا عمل شروع کیا جائے گا جبکہ یکم مارچ سے بیورو آف اسٹیٹسٹکس کا عملہ گھر گھر جاکر معلومات کا اندراج کرنا شروع کردے گا اور یہ عمل یکم اپریل تک جاری رہے گا۔

انھوں نے بتایا کہ 30 اپریل تک مردم و گھر شماری کی تمام معلومات مرتب کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالے کردی جائے گی تاکہ الیکشن کمیشن اس بنیاد پر آئندہ عام انتخابات کی تیاری شروع کرسکے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ملک میں 6 مرتبہ خانہ و مردم شماری کرائی جاچکی ہے۔ پہلی مرتبہ ملک میں مردم شماری وگھر شماری کا آغاز 1951میں کیا گیا جبکہ آخری مرتبہ مردم شماری 2017 میں کرائی گئی تھی۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پہلی مردم شماری میں ملک کی کل آبادی 33.7 ملین تھی جبکہ 2017 میں آبادی 207.7 ملین ریکارڈ کی گئی۔ گزشتہ مردم شماری میں صوبہ سندھ کی آبادی 47.85 ملین ظاہر کی گئی جبکہ کراچی کی آبادی 16.02 ملین بتائی گئی تھی۔

2017 کی مردم شماری میں صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی کے اعداد وشمار پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت تحفظات سامنے آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ محض چار سال بعد ایک مرتبہ پھر مردم شماری کرائی جا رہی ہے ورنہ آئینی طور پر ملک میں ہر 10 سال کے بعد نئی مردم شماری ہوتی ہے۔

2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراضات کی وجہ سے ابتدائی طور پر اسے تسلیم نہیں کیا گیا تھا، جس کے باعث 2018 کے عام انتخابات مردم شماری کے عبوری اعداد وشمار پر کرائے گئے تھے۔

2017 کی مردم شماری کی باضابطہ منظوری سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے فروری 2020 میں دی تھی، جس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی منظوری 12 اپریل 2021 کو دی۔

ساتویں مردم وخانہ شماری کے پہلے مرحلے میں لوگ خود گھر بیٹھے اپنے کوائف درج کرسکیں گے۔ اس مرحلے میں عوام کو 15 دن کا وقت دیا جائے گا، اس دوران لوگوں کو ایک ویب لنک مہیا کیا جائے گا، جس کے ذریعے وہ اپنے اورگھر والوں کے کوائف اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون کے ذریعے ڈیجیٹل ایپلیکشن میں خود درج کرسکیں گے۔

دوسرے مرحلے میں شمار کنندگان گھر گھر جا کر کوائف کا اندراج اور ان کی تصدیق کریں گے، تیسرے مرحلے میں جمع کردہ کوائف اور اعداد وشمارکو مرتب کرکے الیکشن کمیشن کے حوالے کیا جائے گا۔

مردم شماری کے لیے تیار کردہ فارم کے مطابق مردم شماری کے دوران متعلقہ گھروں کے ان افراد کو شمار نہیں کیا جائے گا، جو 6 ماہ سے زیادہ عرصے سے ملازمت، کاروبار یا تعلیم کے لیے ملک کے اندر یا باہر کسی دوسری جگہ رہائش پذیر ہیں جبکہ گھر میں رہنے افراد کی جنس، عمر، مذہب، مادری زبان، ازدواجی حیثیت، تعلیم، روزگار، معذوری وغیرہ سے متعلق کوائف درج کیے جائیں گے۔

یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ کتنے لوگ آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں، مردم شماری کے دوران لوگوں کی قومیت بھی معلوم کی جائے گی کہ وہ پاکستانی ہیں یاافغان، بنگالی، چینی وغیرہ ہیں، اسی طرح یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ کس شہر یا قصبے میں رہنے والے گھرانے یا افراد وہاں کتنے عرصے سے رہائش پذیر ہیں اور ان کا اصل ضلع یا جائے پیدائش کیا ہے۔

واضح رہے کہ فروری سے شروع ہونے والی مردم شماری پر بھی سندھ میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس مرتبہ اعتراض قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ ان کا بڑا اعتراض مردم شماری کے فارم میں قومی شناختی کارڈ کا خانہ شامل نہ ہونے پر ہے۔

قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ ساتویں مردم شماری کے فارم میں قومی شناختی کارڈ کے کالم کو غائب کر نے سے صوبہ سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے غیر ملکیوں اور دیگر صوبوں کے باشندوں کی علیحدہ گنتی نہیں ہوسکے گی جس سے صوبے میں سندھی بولنے والے اقلیت میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

تاہم نیشنل پارٹی سندھ کے صدر تاج مری نے اس اعتراض سے اتفاق نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں سندھی بولنے والوں کے پاس بھی قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں، شناختی کارڈ لازمی ہونے کے باعث وہ بھی شمار ہونے سے رہ جائیں گے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے فوکل پرسن محمد سرور گوندل نے بھی اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں مردم شماری کا مقصد ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے اعداد وشمار جمع کرنا ہوتا ہے تاکہ ان سب کے لیے تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ کے سلسلے میں منصوبہ بندی کی جاسکے، مردم شماری کا شناختی کارڈ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔