ایم کیو ایم کا بلدیاتی الیکشن کیخلاف 12 فروری کو دھرنے کا اعلان

نعیم خانزادہ  اتوار 5 فروری 2023
فوٹو اسکرین گریپ

فوٹو اسکرین گریپ

  کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے کراچی کے حقوق اور حلقہ بندیوں کی درستی کے لیے پیپلزپارٹی کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے 12 فروری کو شہر میں دھرنے کی کال دے دی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے جنرل ورکرز اجلاس میں اعلان کیا کہ 12 فروری کو فوارہ چوک پر دھرنا ہوگا اور ہم وہیں سے بیٹھ کر شہر کو چلا کر دکھائیں گے۔

خالد مقبول نے 12 فروری کو دھرنے کا اعلان کردیا

ایم کیو ایم کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’دھرنا بھی ایسا ہوگا کہ سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا، اٹھارہ مارچ کو کراچی کراچی والوں کے پاس واپس آچکا ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پیپلزپارٹی کو حلقہ بندیوں کی درستی کیلیے ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی نے اعتراف کیا کہ وہ حلقہ بندیوں میں 53 یوسیز کھا گئے، اقرار کرنے کے بعد ٹین ون کا نوٹی فکیشن واپس لیا، لیکن یہ کیسے بے شرم ہیں، ہم نے کہا تھا کہ ہم الیکشن نہیں لڑیں گے تو الیکشن نہیں ہوگا اور الیکشن نہیں ہوا ہے‘۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج سے ایک ہفتے بعد کراچی اس جگہ پر ہوگا جہاں فیصلہ کریں گے، شہر کی ساری سڑکیں دھرنے کی جانب رواں دواں ہوں گی، اگلے اتوار دھرنے کو فوارہ چوک پر شفٹ کریں گے، تمام دفاتر ، شعبہ جات وہاں شفٹ کریں گے اور اس شہر کو وہیں سے چلائیں گے کیونکہ یہ شہر ہمارا ہے ،اور ہمارے باپ کا ہے‘۔

ایم کیو ایم کنونیئر نے کہا کہ ’پہلے بھی کہا تھا یہ چودہ سیٹیں تمھیں واپس دینی ہوگی اور تمھارا باپ بھی دے گا، سولہ مارچ کو اپنی چھینی ہوئی قومی اسمبلی کی نشتیں واپس لیں گے اور باقی عام انتخابات سے پہلے پہلے لیں گے، ایک الیکشن واپس لے لیا اب دوسرا بھی لینا ہے، جس الیکشن سے دستبردار ہوئے تھے اسکے لیے اب دست و گریبان ہونا ہوگا، اب باہر نکلنا ہوگا سازشی چہروں کو بے نقاب کردیا ہے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’مردم شماری وقت سے پانچ سال پہلے ہورہی ہے، یہ مردم شماری ایم کیو ایم کے مطالبے پر ہورہی ہے، ایک ایک شخص کو خود کو گنوانا ہے، اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے، حکمرانوں کو کہا تھا کہ ہمیں گنا نہیں تو تولنا پڑ جائے گا، یہ بھی کہا تھا کہ یہ الیکشن تمھیں ہضم نہیں ہو پائے گا، الیکشن ہارنا کوئی آپشن نہیں، الیکشن کے لیے آج سے تیاری شروع کردیں‘۔

ایم کیو ایم پاکستان کے جنرل ورکرز اجلاس میں سینئر ڈپٹی کنونیئر مصطفیٰ کمال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے پندرہ سالوں کے دوران شہر کو ایک قطرہ پانی نہیں دیا بلکہ الٹا ہمارے حصے کا پانی اربوں روپے میں فروخت کیا، اس چوری میں اراکین اسمبلی اور سرکاری افسران ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ڈھائی لاکھ نوکریاں تقسیم کیں مگر ایک نوکری اس شہر یا حیدرآباد کو نہیں دی، آج تک چالیس فیصد کوٹے پر انھوں نے عمل نہیں کیا، پیپلز پارٹی کی یہ قیادت اس کوٹے پر بھی جعلی ڈومیسائل بنا کر باہر سے لاکر نوکریوں پر قبضہ کررہے ہیں، ایک نیا کالج ،یونیورسٹی نہیں ہے، اس حکمراں جماعت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس شہر کی آدھی آبادی کھا گئے، تین کروڑ کی آبادی کو آدھا کردیا گیا، شہر میں 209 یونین کونسلز تھیں مگر 70 لاکھ آبادی بڑھنے کے باوجود شہر میں 150 کی جگہ صرف 36 یونین کونسلز بڑھائیں گئیں، ایک یوسی نوے ہزار ووٹوں پر ہے جہاں ہمارا ووٹر ہے، ایک یوسی گیارہ ہزار پر بنائی جو انکے حساب سے انکا ووٹ بنک ہے، جب الیکشن ہوتے ہیں تو پولیس انکی ،پرئیذائڈنگ افسر انکا ،بیکٹ پیپر خود لے کر ارہے ہیں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’کیا ہمارے آباؤ اجداد نے اس لیے یہ ملک بنایا تھا کہ تم ہمیں ہمارے حقوق نہ دو ،تم جینے کا حق چھین لو مگر اب فیصلہ کر لیا ہے ایسے نہیں جینا، اب فیصلہ ہوگا کہ ہمارے حقوق ملیں گے یا پھر اس ملک میں حکومت کا کاروبار نہیں چلے گا، ہم گولی نہیں چلانا چاہتے ، ہم شہر بند نہیں کرنا چاہتے، ہم امن پسند ہیں لیکن خاموشی سے مرنا بھی نہیں چاہتے، اب کوشش کرکے مریں گے، جب لوگ اقتدار کے لیے دھرنا دے سکتے ہیں تو کیا ایم کیو ایم اپنے حقوق کے لیے کیا دھرنا نہیں دے سکتی۔

انہوں نے کارکنان کو مخاطب کرکے پوچھا کیا دھرنے کیلیے تیار ہو کیونکہ یہ غیر معینہ مدت کا بھی ہوسکتا ہے، شہر کے حقوق کے لیے کتنے دن بیٹھنا پڑے اس کا معلوم نہیں ہے، جس پر پنڈال میں موجود کارکنان نے ’جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘ کے نعرے لگائے۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’کارکنان سوچ لیں ، ہار آپشن نہیں، ہمیں دھرنا جیتنے کے لیے دینا ہے، ہر کارکن دس دس بندے دھرنے میں لے کر آئے گا، کوئی گولی نہیں چلے گی ،لاش نہیں گرے گی نہ ہی بس جلے گی، ہم نے امن سے اپنی بات کرنی ہے، دھرنا کب تک چلے گا نہیں پتہ ،بس تیاری کرو۔ چوبیس چوبیس گھنٹے بیٹھنا ہے‘۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔