کینیڈا میں ڈاکٹر، انجینئر اور چارٹرڈ کاؤٹننٹ تک پارٹ ٹائم ٹیکسی چلاتے ہیں

مدثر بشیر  اتوار 12 مارچ 2023
ہوٹل چھوڑنے پر سگریٹ نوشی نہ کرنے کے انعام کے طور پر میرے بل سے دوسو ڈالر کی رقم واپس کر دی گئی۔ فوٹو : فائل

ہوٹل چھوڑنے پر سگریٹ نوشی نہ کرنے کے انعام کے طور پر میرے بل سے دوسو ڈالر کی رقم واپس کر دی گئی۔ فوٹو : فائل

نویں قسط

 نِشا، وینکوور ائیر پورٹ اور ٹورنٹو روانگی

3نومبر کی صبح کاآغاز بھی جتندر کی کال کے ساتھ ہوا۔ رات کی تھکاوٹ ابھی تک میرے اعصاب پر سوار تھی۔

پھر بھی میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور فریش ہوکر نیچے کو چل دیا۔ نیچے ناشتے کی ٹیبل پر میرا انتظار ہو رہا تھا۔ اُس دن بھی ڈائننگ ہال کا سپروائزر وہی Spanish تھا۔ میں نے ایک ہندوستانی ویٹرس سے درخواست کر کے اپنی چائے کو شدیدگرم کروایا جس کی وجہ سے میری تھکن کافی حد تک دُور ہو گئی۔ میں نے بڑے کُھلے دل سے جتندر اور دیوِندر کو لاہور آنے کی دعوت دی اور اُنہوں نے مجھے لُدھیانہ آنے کا کہا۔ ناشتے کے دوران ہی بارج کی کال آ گئی کہ وہ بھی ہوٹل آ رہے ہیں۔

اسی دوران بَلی ہال میں داخل ہوئیں، ہلکی سی مسکراہٹ سے ایک دوسری ٹیبل پر جا بیٹھیں اورکچھ دیر بعد ناشتہ کر کے ہمیں دُور سے ہی ہاتھ ہلا کر اپنے کمرے کو واپس چلی گئیں۔ نو بجے کے قریب بارج بھی آ گئے اور ہم لابی میں بیٹھ گئے۔

اُس دن وہ انتہائی سکون کی حالت میں دکھائی دے رہے تھے۔ پروگرام کے انعقاد سے پہلے تک اُن کے چہرے پر کافی اضطرابی کیفیت رہتی تھی لیکن اُس وقت وہ انتہائی شانت اور ٹھہرے ہوئے دکھائی دیئے۔ میں نے کینیڈا کے Natives کے بارے میں ایک سوال کیا تو اُنہوں نے کئی زاویوں سے اُس کے جواب دیئے اور ایک واقعہ کا بطور خاص ذکر کیا کہ ایک مرتبہ وہ کسی CAB میں سفر کر رہے تھے تو اُس کا ڈرائیور ایک ہندوستانی پنجابی سکھ تھا۔ ب

اتوں باتوں میں اُس نے Natives کے بارے میں انتہائی غیر مناسب اور غیر شائستہ الفاظ استعمال کیے، اس پر اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کتنے برسوں سے کینیڈا میں ہو؟ اُس نے جواب دیا، اٹھارہ برس سے۔ تو اُنہوں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا تم کبھی کسی Native سے ملے ہو؟ ڈرائیور نے نفی میں جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر تم اتنے برسوں میں کسی Nativeسے مِلے تک نہیں تو پھر اُن کے بارے میں مثبت یا منفی رائے قائم کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ اُن کے اُس جواب پر وہ بہت شرمندہ ہوا۔پھر اُنہوں نے ہم لوگوں کے عمومی رویہ پر منطبق کیا کہ ہم لوگ بغیر کوئی تحقیق کیے الزام تراشی پر اُتر آتے ہیں۔ پھر دوسرا رویہ ہمارے اندر یہ ہے کہ دُوسروں کوہرگز قبول نہیں کرتے۔

میں اُن کی باتیں بڑے ہی دھیان سے اور خاموشی سے سُن رہا تھا اور اس تمام گفتگو میں جتندر سادگی کے ساتھ اپنے لُدھیانوی لہجے میںہاں میں ہاں ملاتے جا رہے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا کہ جب اُنہو ں نے جواب میں یہ کہنا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تو وہ کہہ گئے ،’’ہاں جی اِنج ای ہونا چاہیدا اے۔‘‘ یعنی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ جب بارج نے حیرانی سے اُنہیں دیکھا تو اُنہیں اپنی اُس غلطی کا احساس ہوا، ساتھ ہی بولے ، ’’نہ جی نہ، ایہہ تاں بڑی ہی ماڑی گل ہو گئی۔ بس اوویں ہونا چاہیدا اے جیویں تُسیں آکھدے پئے جے۔‘‘( نہ جی نہ ، یہ بڑی غلط بات ہو گئی، بس وہی ہونا چاہیے جیسا آپ فرما رہے ہیں۔)

بارج نے کینیڈا میں موجود پنجابیوں کے حوالے سے ایک بات یہ بتائی کہ 1970ء تک آنے والے دونوں دیسوں کے پنجابی ’پنجابی‘ ہی کہلاتے تھے، لیکن اس کے بعد ایک نیا رجحان بنا کہ یہ پاکستانی ہیں اور یہ ہندوستانی۔ گفتگو کے اختتام پر بارج نے ہم دونوں کو ایک ایک گفٹ ہیمپر بھی دیا جس میں Vancouver شہر پر ایک انتہائی معلوماتی تصویری کتاب اور اس کے ساتھ ایک دیدہ زیب پیکنگ میں چاکلیٹ کا ڈبہ تھا۔پیارے مُدثر!

بارج نے انعامی رقم میں سے کچھ نقد رقم کینیڈین ڈالرز کی صورت میں دی تاکہ ہم لوگ کوئی خریداری کرنا چاہیں تو کرلیں۔ میں اُن کے حساب کتاب اور ایمانداری کی داد بھی دینا چاہوں گا کیونکہ انہوں نے مجھے ناولٹ ’’کون‘‘ کی بیس کاپیوں کے بھی 48 ڈالر الگ سے ادا کیے۔

اس حوالے سے کچھ کاغذات پر Receiving لی۔ مجھے بڑے دوستانہ انداز میں گلہ کرتے ہوئے کہا ’’ بشیر جی، آپ کے کچھ انٹرویوز کے بعد لوگ آپ سے ملنا چاہتے تھے لیکن آپ اب جا رہے ہو، کوئی بات نہیں، اگلی مرتبہ کچھ وقت نکال کر آئیے گا۔‘‘ اور میں جواب میں صرف مُسکرا دِیا۔

میں اورماسی اپنے کمرے میں گئے۔ انہوں نے پھر جلدی جانے پر ناراضگی کااظہار کیا۔ مجھے ٹکٹوں کے Print out دیئے۔ تمام سامان کی ایک بار اچھی طرح سے جانچ پڑتال کروائی ، تالے لگوائے۔ میں نیچے جانے سے پہلے ایک مرتبہ جتندراوردیوندر کو انکے کمرے میں مل کر آیا۔

ہم دونوں نیچے گئے تو اسقبالیہ پر اُنہوں نے پہلے روم سروس سے کلیئرنس لی پھر اُنہوں نے مجھے میرے 200امریکی ڈالر انتہائی خوشی کے ساتھ واپس کیے کہ میں نے سگریٹ نوشی نہیں کی۔ میں دل میں ہنسا کہ آپ لوگ مے نوشی کی اجازت تو دے دیتے پر سگریٹ نوشی قبول نہیں۔

اُس کے بعد میں نے Self Service کے تحت سامان گاڑی میں رکھا اور میں اور نِشا ہم دونوں ایک بار پھر لاہور کی باتیں کرتے ہوئے رچمنڈ کے علاقے میں پہنچے جہاں وینکوور ایئرپورٹ واقع ہے۔

وینکوور ایئرپورٹ رچمنڈ کے علاقے Sea Island میں واقع ہے۔ وینکوور کے ڈاؤن ٹاؤن سے اس کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے۔ یہ مسافروں کی آمدو رفت کے اعتبار سے کینیڈا کا دوسرا مصروف ترین ایئرپورٹ ہے جہاں پر سالانہ 70 لاکھ سے زائد مسافر اندر ون و بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔

شمالی امریکا اور یورپ کے کسی بھی ایئرپورٹ کے مقابلے میں یہاں سے سب سے زیادہ براہِ راست پروازیں چین کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔ Air Canada اور West Jet کی پروازوں کا نظام یہیں سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ 2004ء میں اس ایئرپورٹ کو دُنیا کے بہترین ایئرپورٹس میں سے ایک قرار دیا گیا۔

ایئر پورٹ کے گیٹ پر بھی اُنہوں نے مجھ ڈھیر دعائیں، پیار دیااور مزید یہ وعدہ بھی لیا کہ اگلی بار زیادہ دِنوں کے لیے آؤں گا۔ میں نے اپنا سامان ایک ٹرالی پررکھا اور وسیع رقبے پر پھیلے وینکوور ایئرپورٹ میںداخل ہوگیا۔

جب میں یہاں آیا تھا تو اُس وقت اس کو اتنا تفصیل سے نہ دیکھ سکا تھا۔ اب دِن کا وقت تھا اور تمام عمارت بڑے ہی واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ اندرداخل ہوتے ہی الیکٹرانک سلائیڈ چلتی دیکھی کہ ایئرپورٹ کے احاطے میں WiFi انٹرنیٹ پربھی تین یا چار ڈالراد ائیگی کرنی ہوگی۔

اُس کے بعد میں اپنا سامان جب بورڈنگ کے لیے لے کر گیا تو اُس بات کا شدید احساس ہوا کہ انٹرنیٹ بینکنگ کے بغیر کوئی گزارا نہیں۔ بورڈنگ کاؤنٹر پر ایک چائنیز خاتون تھیں۔

میری ٹکٹ پر مجھے ایک ہینڈ کیری کی اجازت تھی اور بڑے سفری بیگ جس کا وزن23کلو گرام تک ہونا ضروری تھا، اُس کے 35 ڈالر تھے۔ لیکن بورڈنگ کاؤنٹر پر ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن محترمہ نے یہ کہا کہ یہ ہینڈ کیری جو کہ میں لاہور سے کینیڈا تک لے کر آیا تھا اور پچھلی تمام ایئر لائنز نے اُسے ہینڈ کیری ہی قرار دیا تھا، اُن کے دیئے گئے ڈیزائن (نمونہ جات) کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے اس کے الگ سے 30 ڈالر ہوں گے اور کُل مِلا کر 65 ڈالر ہوں گے۔ میں کسی بھی قسم کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اس لیے فوری طور پر مان گیا۔

اس دوران مجھے طارق صاحب کی ٹورنٹو سے کال بھی آئی اور ا ُنہوں نے پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ، تو میں نے اُنہیں بتایاکہ بورڈنگ پر ہوں۔ اور بجائے اس کے کہ کوئی بات بتلاتا، یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ابھی فارغ ہو کر فون کرتا ہوں۔

اس کے بعد مجھ پر نیا انکشاف یہ ہوا کہ اُن ہی چائنیز محترمہ نے کہا کہ وہ سامنے Laptop پڑا ہے، اُدھر جا کر میں انٹرنیٹ بینکنگ سے Payment کردوں تو میں نے اُن سے کہا کہ مجھے تو کیش سے ہی ادائیگی کرنی ہے۔

اُس خاتون نے اپنی ساتھی خاتون سے کچھ دیر بات چیت کی اور پھر کہا کہ مجھے کریڈٹ کارڈ سے Payment کرنا ہوگی اور اُس کے لیے مجھے ہال کے دوسرے کونے سے 100ڈالر کا کارڈ خریدنا ہوگا کیونکہ اب ادائیگی95ڈالر ہوگی۔

میں نے اپنے سامان کی ٹرالی کو پکڑا اور اُس کو ساتھ لیے وسیع و عریض ہال کے دوسرے کنارے پر کریڈٹ کارڈ خریدنے کے لیے کاؤنٹر پر پہنچا تووہاں پر 100ڈالر کا کریڈٹ کارڈ ٹیکس ڈال کر 108ڈالر کا ملا۔ یُوں میرا وہ کام جو محض 35ڈالر میں ہونا تھا، وہ 108 ڈالر تک جا پہنچا۔ جب میں اُس کاؤنٹر پر پہنچا تو مجھے ایک شخص اُسی کاؤنٹر پر لڑتا دکھائی دیا اور میرے ہینڈ کیری سے ایک اچھا خاصا بڑا بیگ اُس نے فری ہی میں کروایا۔ بیرونِ ملک سفر میں آپ کا Self confidence اور اس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی سمجھ سب سے کارآمد ہتھیار ہیں۔

ادھر میرا گیٹ B-27 تھا۔ جب آپ اپنے متعلقہ گیٹ تک پہنچ جاتے ہیں تو ایک سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔ اب کی بار میری فلائٹ ایئر سروس سے تھی۔

میں نے طارق صاحب کو فون پر ساری بات بتائی تو اُنہوں نے کہا کہ جب وہ انٹرنیٹ بینکنگ کی بات کر رہی تھی تو میں اُن کو Slipکی تصویر بھیج دیتا تو اُنہوں نے اپنے کریڈٹ کارڈ سے بذریعہ انٹرنیٹ Payment کر دینی تھی۔ کم از کم 65 سے اُوپر والے پیسے تو بچ جاتے۔

خیر دو گھنٹے بعد فلائٹ کا ٹائم ہوا۔ یہ فلائٹ ایک طرح کی لوکل بس کی مانند تھی۔ اس کی سیٹیں قطعاً کُھلی نہ تھیں اور اس نے تقریباً ایک گھنٹے کی فلائٹ کے بعد کیلگری شہر بھی جا کر رُکنا تھا۔ یہاں اس کا قیام کوئی چالیس منٹ کا تھا۔

میری سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر ٹورنٹو کے مضافات کے دیہاتی علاقے کا ایک لڑکا آ بیٹھا۔ اُس کے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ ہوئی۔ اُس سے ہوئی گفتگو کے نوٹس راستے ہی میں گم ہو گئے تھے لیکن جو کچھ یاد رہ گیا، وہ تحریر کر رہا ہوں۔

اُس نے بتایا کہ وہ گلف سے واپس آ رہا ہے۔ جہاں اُس نے کوئی ویڈیو گیم کی چیمپئن شپ جیتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس نے ہمارے گجرات کے کچھ لڑکوں کی بڑی تعریف کی۔

جنہوں نے اس طرح کی کئی چیمپئن شپسChampionships جیت رکھی تھیں۔ میں نے دل ہی دل میں اُن لڑکوں کو بہت شاباشی دی۔ یُوں ہوا کے دوش پر دورانِ پرواز آپ کواپنے دیس کی اچھی خبر ملے تو خوشی ہوتی ہے۔

لیکن افسوس یہ بھی ہوا کہ ہمارے اپنے گھر میں ان کامیابیوں کا کسی کو پتا نہیں۔ کیلگری پرواز رُکی ، کچھ سواریاں اُتر گئیں اورکچھ نئے مسافر بھی آ گئے ۔میری اُس لڑکے کے ساتھ گفتگو جاری رہی جس کے بزرگ لندن سے اِدھر آ گئے تھے۔

اُس کے ساتھ میری وہاں کے Natives پر بھی بات ہوئی تو اُس نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ ہم سارا سال انتہائی محنت کرتے ہیں۔

وہ لوگ خود سے کوئی بھی کام نہیں کرتے اور ہمارے ٹیکسوں کی کمائی پر عیش کرتے ہیں اور سرکارکو انہیں کوئی Relief/Subsidy دینی ہے تو وہ اپنے پلّے سے دے، ہمارے ٹیکس کی رقومات کو ان پر خرچ نہ کرے۔ پھر اُس نے بتایا کہ اُس کے دادا، والد اور خود اُس نے اپنے فارم ہاؤس پر کھیتی باڑی کی ہے۔

اگر میں نے شمالی امریکا (ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا) میں یورپی آبادکاروں کی جانب سے کئی صدیوں تک ’اصلی باشندوں‘ پر ڈھائے جانے والے ناقابل یقین مظالم کے بارے میں تھوڑا بہت مطالعہ نہ کیا ہوتا تو میں اُس کی بات سے متفق ہو جاتا۔ اس حوالے سے امریکا کے مشہور دانشور آنجہانی Howard Zinn کی قابلِ قدر کتاب “A People’s History of the United States”پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اس کتاب میں کولمبس کی 1492ء میں امریکا کی دریافت سے لے کر 2010ء تک کے لرزہ خیز اور صدیوں پر محیط استحصال کے حالات درج ہیں۔

’’جب ایرواک باشندوں نے مل جل کر مزاحمت کی کوشش کی تو ان کا سامنا ایسے ہسپانویوں سے ہوا جن کے پاس زرہ بکتریں، بندوقیں اور گھوڑے تھے۔

جن ایراواک کو ہسپانوی زندہ گرفتار کر لیتے انہیں یا پھانسی دی جاتی یا زندہ آگ میں پھینک دیا جاتا۔ ایراواک میں زہر کے ذریعے وسیع پیمانے پر خود کشیاں شروع ہو گئیں، شیر خوار بچوں کو ہسپانویوں سے بچانے کے لیے مار دیا جاتا تھا، دو سالوں کے اندر قتل، ہاتھ پاؤں کاٹنے یا خود کشیوں کے نتیجے میں ہیٹی میں بسنے والے ڈھائی لاکھ انڈینز کی تعداد آدھی رہ گئی۔

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ کوئی سونا باقی نہیں بچا تو وسیع جاگیروں پر انڈینز سے بطور غلام مزدوری لینا شروع کر دی گئی۔

ان سے سفاکانہ انداز میں کام لیا جاتا۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں انڈینز اپنی جانیں ہار بیٹھے۔ 1515ء تک ان کی تعداد پچاس ہزار کے قریب رہ گئی تھی۔ 1550ء تک ان کی تعداد محض پانچ سو تھی۔ 1650ء کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اصل ایراواک اور ان کی نسل مکمل طور پر معدوم ہو چکی تھی۔ ‘‘

ہاورڈ زِن لکھتے ہیں:

’’یہ ہے تاریخ کا اصل چہرہ، فتوحات، غلامی اور موت کی تاریخ، جس کی ابتداء آج سے پانچ سو سال پہلے امریکا میں انڈینز آبادیوں پر یورپیوں کے حملوں کی ابتداء سے ہوئی لیکن تاریخ کی کتابوں میں ’جو امریکا میں بچوں کو نسل در نسل پڑھائی جا رہی ہیں، یہ تاریخ جراتمندانہ مہمات سے شروع ہوتی ہے جس میں کوئی خون خرابہ نہیں، ’’اور ’’کولمبس ڈے‘‘ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔‘‘

اور اس بات کا ذکر کرنا بھی برمحل ہوگا کہ ریڈ انڈینز کی آبادی گھٹانے کے لیے انتہائی انسانیت سوز سازشیں گھڑی گئیں جن میں سے ایک سازش یہ تھی کہ اُن میں یورپ میں طاعون اور دیگر وباؤں کے شکار مریضوں کے زیر استعمال کمبل، چادریں وغیرہ ’’بطور تحفہ‘‘ تقسیم کی گئیں جن کے نتیجے میں لاکھوں نہیں کروڑوں مقامی باشندے سِسک سِسک کر موت کے گھاٹ اُتر گئے۔

اس کے علاوہ امریکا میں غلام لانے کی خاطر افریقہ پر جو یلغار کی گئی، وہ الگ کہانی ہے۔ 1800ء تک افریقہ سے غلام بنا کر امریکا لائے گئے سیاہ فاموں کی گنتی کُل افریقیوں کا ایک تہائی تھا۔ تقریباً پانچ کروڑ افریقی باشندے امریکی سامراج کے ہاتھوں غلامی اور موت کی بھینٹ چڑھے۔

جن ریڈ انڈینز کی کئی نسلیں آج معدوم ہو چکی ہیں، اگر بچے کُھچے قدیم باسیوں کو کچھ حقوق اور مالی امداد دی بھی جا رہی ہے تو اس سے اُن پر ہونے والے ناقابل یقین مظالم کی تلافی ناممکن ہی سمجھی جائے گی۔ یہ تمام تر دھرتی اُنہی کی تھی جس سے اُنہیں محروم کر کے براعظم کی نُکروں میں دھکیل دیا گیا۔

خیر اب دوبارہ دیہاتی لڑکے کی جانب آتے ہیں۔ اُس نے یہ حیران کُن بات بھی بتلائی کہ اُس کی شادی ایک چائنیز لڑکی سے ہو رہی ہے ۔

اس کا اپنا قد 5.7 فٹ جبکہ لڑکی کا قد 5.8 فٹ ہے۔ اسی دوران میں اس لوکل فلائٹ کو بھی دیکھتا رہا جس میں مسافروں کو صرف اور صرف سادہ پانی پلایا گیا۔ اگر آپ کو چائے یا کھانا لینا ہے تو آپ کو اپنی جیب سے خرچ کرنا ہوگا۔ مجھے ایئرپورٹ پر ہوئے واقعے پر پہلے ہی بڑا غصہ تھا اور اُس کے بعد فضائی میزبانی کی یہ روِش بھی ناقابل برداشت تھی۔

میرے بیگ میں کچھ بسکٹس اور چپس تھے جو میں نے اپنے ساتھی مسافر کو بھی پیش کیے جو انتہائی خوش دِلی کے ساتھ قبول کر لیے گئے۔ یُوں باتیں کرتے ہوئے کیلگری سے آگے مزید ساڑھے چار گھنٹے کی فلائٹ سے ٹورنٹو پہنچے۔

ٹورنٹو

میرے اُستاد طارق صاحب مجھے لینے آئے تھے۔ وہ آگے بڑھ کر مجھے مِلے۔ میرے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا بہت دشوار تھا۔ دِل اپنائیت کے احساس سے لبریز تھا۔ پچھلے قریباً ایک ہفتے سے میں دیارِ غیر میں تھا۔ ماسی کے بعد طارق صاحب جن کے ساتھ رب جانے کس کس طرح کی جُڑتیں تھیں، وہ مجھے بڑے ہی پیار سے مِلے۔

اُن کی آنکھیں نمناک تھیں۔ ان ہی جذباتی لمحات میں اُنہوں نے مجھے جی بھر کے سینے کے ساتھ لگایا اور اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے ایک جملہ کہا:

’’بیٹا جی میری زندگی قطعاً کوئی Failure نہیں۔ آپ میری جمع پونجی میں سے ایک ہو۔‘‘

ان کی یہ بات سُن کر میں کتنی دیر ہنستا رہا۔ گاڑی کی ڈِگی میں سامان رکھا۔ اپنے اس اُستاد سے اپنے لیے اس طرح کے جملے سُننا کسی بھی بڑے ایوارڈ سے قطعاً کم نہ تھا جس نے نصاب کی کتب کے باہر کی زندگی کے بارے میں بتلایا، نجم حسین سیّد سے ملایا، ادب، تاریخ کو دیکھنے کا ایک الگ زاویہ نظر دیا۔

دوسری اہم بات یہ تھی کہ میں نے کبھی ہرگز یہ نہ سوچا تھا کہ کبھی ملک سے باہر بھی جاؤں گا، اور جاؤں گا بھی تو کینیڈا، اور یوں طارق صاحب سے ملاقات ہو گی۔ جنہیںلاہور چھوڑے بیس برس سے زائد ہو چکے تھے۔ پہلے قطر، پھر سعودی عرب اور اب کینیڈا، اس دوران وہ صرف تین چار مرتبہ ہی پاکستان آئے تھے ۔

طارق صاحب کا گھر ٹورنٹو کے قریب ایک دوسرے شہر Brampton میں تھا۔ ٹورنٹو شہر سے گزر کر اُن کے گھر جانے کا دورانیہ تقریباً چالیس منٹ تھا لیکن وینکوور اور ٹورنٹو کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہے۔ وینکوور میں درجہ حرارت 2 سینٹی گریڈ تھا اور یہاں ایئرپورٹ سے نکلا تو منفی 11 تھا۔ او ر ابھی شہر میں برف نہیں پڑی تھی۔

اُن کے ساتھ باتوں میں سب سے زیادہ ذکر اُن کے چھوٹے بھائی عارف کا ہوا جو لندن میں دس سے زائد برس گزار کر 2005ء میں پاکستان واپس آیا تھا اور اُس وقت وہ شدید معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار تھا۔ میں اُن کے گھر پہنچا تو اُن کی تینوں بیٹیوں اور اہلیہ شمائلہ جی سے بات چیت ہوئی۔ شمائلہ میرے مرحوم بہنوئی تنظیم اکبر چیمہ کی (گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم ایس سی باٹنی) ہم جماعت بھی تھیں۔

اُن کے ساتھ اُن کی ناگہانی موت کا ذکر ہوتا رہا۔ ایک بے انتہا پرتکلف کھانا حاضر تھا۔ اتنے دِنوں کا تھکا ہارا تھا، پچھلے سیشن کے دباؤ کے باعث میرے کندھے کھچے ہوئے تھے، ایسے میں گھر کا کھانا بڑی نعمت لگا۔ طارق صاحب نے مجھے دو Pain killers دیں اور میرے کندھوں پر ایک کریم سے مالش کی۔ میں ایسا سویا کہ پھر کہیں صبح جا کر اُٹھا۔

طارق صاحب وہاں پر عدالت میں مترجم (Translator)کا کام کرتے ہیں۔ کچھ مہینے کسی یونیورسٹی میں بھی پڑھایا۔ اُس کے ساتھ UBER ٹیکسی بھی چلاتے ہیں۔ انگریزی ادب کے اُستاد کے یہ حالات میرے لیے دکھ کا باعث تھے۔

ایمازون سامان کی ترسیل

طارق صاحب کا ٹیکسی چلانا، لاہورمیں انگریزی کا استاد ہونا، کئی شاگرد وں کے ساتھ انتہائی عزت و احترام کا ربط اور تعلق… اور یہ سب… میرے لیے انتہائی حیران کُن تھا۔ جب میری اُن کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہوئی تو یہ بات اور بھی حیران کُن تھی کہ دُنیا میں UBER اور دیگر سفری سہولت فراہم کرنے والی گاڑیوں میں ڈاکٹر، انجینئر، ایم بی اے پاس اور یہاں تک کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ( C.A) تک بھی بطور ڈرائیور یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

طارق صاحب کو 5 نومبر کو Amazonکی ایک آن لائن پارسل سپلائی کی جاب ملی جو کہ95 ڈالر کی تھی۔ چونکہ میں پہلی مرتبہ دیس سے باہر گیا تھا اس لیے مجھے بہن بھائی، بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر ضرور جانا تھا۔

اس لیے صبح دس بجے کے قریب بھابھی شمائلہ اور بھتیجی فاطمہ کے ساتھ قریبی Markets پر چلا گیا۔ مجھے Amazon کے سٹور تقریباً ایک بجے پہنچنا تھا جو کہ ٹورنٹو شہر کے ڈاؤن ٹاؤن کے ساتھ تھا۔

سو ہم دونوں اُستاد شاگرد قریب بارہ بجے Brampton سے نکلے تو راستے میں مجھے طارق صاحب نے بتایا کہ پہلے Amazon اپنی یہ ترسیل (delivery)کسی اور کمپنی کے تحت کرواتی تھی جس سے ہمیں ہر پارسل کی ڈلیوری پر تقریباً آٹھ سے نو ڈالر مل جاتے تھے اور اب چونکہ اُن لوگوں نے بلاواسطہ (direct) یہ کام شروع کردیا ہے۔

اس لیے اب یہ رقم کم ہو کر تین سے چار ڈالر رہ گئی ہے۔ شہر کی ستّر منزلہ عمارتوں کو دیکھتے ہوئے جو دُور سے شیشے کا گھر ہی دکھائی دے رہی تھیں اور چوڑی شاہراہوں پر طرح طرح کی گاڑیوں اور بڑے بڑے ٹرالروں کے برابر محو سفر تھے جو اپنی اپنی سیدھ (Lane) میں ہی بھاگے جا رہے تھے۔

اس دوران طارق صاحب ایمزون کی جاب والوں کے موبائل فون پر گفتگو میں مشغول رہے۔ جب انہوں نے فون بند کیا تو میں نے کینیڈا میں موبائل کنکشن دینے والی کمپنیوں کے بارے میں استفسار کیا تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے تفصیلی معلومات کچھ اس طرح دیں۔

کینیڈا میں انٹرنیٹ اور فون سروس کی تین چار کمپنیاں ہی ہیں۔ اتنے وسیع و عریض مُلک کینیڈا میں انہی تین چار کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔

کیونکہ یہاں پر بھی استحصال پر مبنی سرمایہ داری نظام کا ہی راج ہے۔ کینیڈا میں فون کا بل دیگر ممالک خصوصاً انڈیا پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقابلہ کم ہے اور چاروں کمپنیوں نے ملی بھگت سے ریٹس مقرر کر رکھے ہیں۔

کسی بھی کمپنی کے پاس جائیں، کوئی رعایت نہیں مِلتی۔ آپ کو تقریباً ایک جیسے ریٹس پر ہی سروسز مہیا کی جاتی ہیں۔

ان میں سے ایک کمپنی کا نام Rogers Communications، دوسری کا نام BCE Inc. جبکہ تیسری کا Telus ہے ۔ان کمپنیوں نے آپس میں معاہدے کر رکھے ہیں کہ مشرقی صوبے میں فلاں کمپنی آپریٹ کرے گی، مغربی صوبوں میں دوسری کمپنی۔ جیسے کہ Telusہی کی ایک ذیلی کمپنی Shaw البرٹا اور برٹش کولمبیا وغیرہ میں آپریٹ کرتی ہے۔جبکہ باقی کمپنیاں دوسرے صوبوں میں اپنی سروسز مہیا کر رہی ہیں۔

یہ ساری اجارہ داری حکومت سے مل کر ہی بنائی گئی ہے۔ پاکستان میں پانچ چھے GB کا جو ڈیٹا پیکیج دو ڈھائی سو میں مل جاتا ہے، وہ کینیڈا میں پچاس ساٹھ ڈالر کا پڑتا ہے یعنی پاکستانی کرنسی میں ہزاروں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ انڈیا میں ڈیٹا پیکیج اور بھی زیادہ سستے ہیں۔

ان کمپنیز کا لوٹ کھسوٹ کا ایسا نظام ہے کہ کسی باہری کمپنی کو یہاں قدم جمانے نہیں دیتے۔ جب بولی لگتی ہے تو انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ایک بار ایک امریکن کمپنی نے یہاں آ کر بولی میں حصّہ لیا تو یہ سب کورٹ میں چلے گئے اور اس کمپنی کو بولی میں حصہ لینے نہیں دیا گیا کہ کوئی اور مقابلے پر آ جائے گا تو ہمیں ریٹس گھٹانے پڑیں گے۔ سارا کھیل اجارہ داری کا ہے۔

یُوں ہم Amazon کے ایک گودام پر پہنچے ،اپنی جاب کا نمبر دروازے پر بتلایا اور ایک قطار میں لگ گئے۔ ہم سے آگے کوئی سات آٹھ گاڑیاں تھیں جن میں سے تین چار گاڑیوں میں ڈرائیور اور Helper دونوں ہی خواتین تھیں اور اپنے پہناوے سے وہ برصغیر پاک و ہند (Sub Continent) ہی کی دکھائی دے رہی تھیں۔

ہمارے علاوہ باقی تمام افراد سٹیشن ویگن پر تھے جبکہ ہم کار پر تھے۔ ہم سے پہلے والی گاڑیوں میںبڑے بڑے پارسل خواتین نے خود لوڈ کیے پھر کچھ کاغذات سنبھال کر گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی باہر Exit کو نکل گئیں۔

جب ہماری باری آئی تو ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ پارسل رکھے گئے لیکن سپروائزر نے وہ پارسل باہر نکال دیئے جو گاڑی میں نہیں آ سکتے تھے اور اگلی بار سٹیشن ویگن لانے کو کہا۔ اُنہوں نے ہمیں 36پارسل دیئے جن میں خطوط، ہیمپرز، کھلونے، دودھ کے ڈبے اور موبائل فون بھی شامل تھے۔

طارق صاحب نے اپنا موبائل اُن کے سسٹم کے ساتھ لنک کردیا اور ہم لوگ ٹورنٹو کی مضافاتی آبادی کو چل دیئے جو کہ اُس سٹور سے تقریباً چالیس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ ہمیں یہ تما م پارسل شام چھ بجے تک ڈلیور کرنے تھے۔ گزشتہ رات کچھ برف بھی پڑ چکی تھی۔

ہم نے پہلی ڈلیوری کوئی تین بجے کی۔یہ پارسل تین بجے گھروں، ہاسٹلز اور ہوٹلز تینوں ہی جگہ پر پہنچانے تھے۔ صرف ہوسٹل اور ہوٹل میں ہمیں اُس جگہ کے کنٹرولر کے ساتھ رُکنا پڑا۔ اس کے علاوہ جس گھر بھی جاتے اُس کے باہر صرف ایک مرتبہ Bell دیتے، اگر تو صاحب ِخانہ آگیا تو ٹھیک، ورنہ پارسل گھر کے دروازے کے ساتھ کسی محفوظ جگہ رکھا، ایک تصویر کھینچی اور Amazon کے سپروائزر کو بھیج دی، یُوں ایک پارسل کی جاب ختم ہو گئی۔

کسی بھی گھر کے باہر قطعاً کسی کو یہ خوف ہرگز نہ تھا کہ اُن کا پارسل چوری بھی ہو سکتا ہے۔Amazonکا سپروائزر ہمارے ساتھ ہر وقت رابطے میں تھا۔ ایک پارسل Deliverہوتا تو ساتھ ہی دوسرے کے لیے سفر شروع ہو جاتا۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا اور چائے تک پینا نصیب نہ ہوئی اور وہ جاب جو کہ ہمیں 6بجے تک مکمل کرنا تھی، کسی بھی صورت مکمل ہوتی دکھائی نہ دے رہی تھی۔

ٹورنٹو کے گرد درختوں کے پتوں کا رنگ اس طرح زرد نہ تھا جو میں وینکوور اور سری میں چھوڑ کر آیا تھا، لیکن جیسے جیسے شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے، سڑکوں پر پڑی برف کی تہہ، نارنجی پتوں سے لدے درخت اورآسمان کی بیکراں وسعتوں میں کہیں دُور ڈوبتا سورج ایک عجب سماں دکھا رہا تھا۔

میں اپنی گاڑی میں سے کہیں کہیں موبائل کیمرے سے تصاویر بھی بناتا رہا، لیکن مجھے اس بات کی بھی احتیاط کرنا پڑ رہی تھی کہ کسی بھی گھر کی تصویر اس طرح سے نہ آئے کہ یہ معلوم ہو کہ خصوصاً گھر کی تصویر بنائی جا رہی ہے کیونکہ اس پر کوئی بھی مالک مکان اعتراض کر سکتا تھا۔ چھ بجے کے بجائے آٹھ بج گئے اور ہم لوگ تقریباً28 پارسل اُن کے مقررہ پتوں پر دے چکے تھے۔ طارق صاحب کے ساتھ میری ہمت بھی مکمل طور پر جواب دے گئی تھی۔

پھر یہ فیصلہ ہوا کہ باقی پارسل واپس دے دیئے جائیں۔ ہم لوگ 9بجے کے قریب Amazon کے گودام پہنچے۔ وہاں پہنچ کر اس بات کا بھی اطمینان ہوا کہ ہمارے علاوہ کچھ دیگر گاڑیوں والے بھی پارسل واپس کر رہے تھے۔ سامان واپس کر کے 9.30 ہو چکے تھے اور واپسی کی سڑک پر ٹریفک بھی بہت زیادہ تھی۔

جب میں طارق صاحب کے ساتھ Amazon کے سامان کی ترسیل کر رہا تھا تو ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن کے ساتھ کچھ علاقے ایسے بھی دیکھے جہاں برف کی صفائی کوئی اتنی خاص نہ تھی۔ اچنبھا ہوا، پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ اُن علاقوں میں سے ہیں جہاں برف کی صفائی باقاعدگی کے ساتھ نہیں کی جاتی۔ ان علاقوں میں زیادہ تر وسطی افریقی ممالک کے لوگ آباد ہیں۔

یُوں تقریباً پونے گیارہ بجے ہم Brampton پہنچے۔ اب میرے دل میں یہ سوال بھی تھا کہ ہم لوگ مقررہ وقت میں تمام پارسل نہیں پہنچا سکے تو کیا اُس میں سے پیسے کٹیں گے؟ اور اگر کٹیں گے تو کتنے؟ تاہم تین دن کے بعد جب اُنہیں موبائل پر رقم کی وصولی کا نوٹیفکیشن آیا تو پُورے 95ڈالر ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ میرے لیے یہ معاملہ خوش گوار اور حیران کُن تھا، لیکن یہی کینیڈا کا نظام ہے۔

تھکے ہارے ہم گھر پہنچے، جاتے ہی کھانا کھایا اور میں فرسٹ فلور پر اُس کمرے میں چلا گیا جو کہ اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی سے میرے لیے وقتی طور پر خالی کروایا گیا تھا۔

نیاگرا فالز

نومبر کی صبح ہمیں اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت نیاگرا فالز (Niagra Falls)جانا تھا۔ درجہ حرارت منفی نو دس کے قریب تھا لیکن فضا میں دھوپ کی تمازت بھی موجودتھی۔ صبح گیارہ سے بارہ بجے تک طارق صاحب نے آن لائن عدالت میں ایک Translator کے طور پر کام کرنا تھا۔

Brampton سے نیاگرا فالز کا تقریباً ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کا سفر تھا۔ ہم لوگ ناشتہ کر کے دس بجے گھر سے نکلے، گرم جیکٹ اور شوز کے علاوہ سویٹر الگ سے پہنے گئے۔ ہاتھوں میں گلوز اور سر پر گرم ٹوپی اور کچھ خشک میوہ جات ساتھ لے ہم روانہ ہو گئے۔

گیارہ بجے کے قریب ہم نیاگرا Interchange سے پہلے ایک بڑے شاپنگ پلازہ کے سامنے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے بیٹھ گئے جہاں ٹائروں کا ایک بہت بڑا سٹور بھی تھا۔ طارق صاحب نے وہاں بیٹھ کر تقریباً ایک گھنٹہ چالیس منٹ آن لائن عدالت میں Translator کی حیثیت سے کام کیا۔

میں اس دوران باہر نکل آیا۔ سڑک کے دوسری جانب درختوں کا ایک طویل سلسلہ موجود تھا لیکن یہاں درختوں کا رنگ زیادہ تر گہرا سبز اور ہلکا نارنجی تھا۔ میں اُسی پلازے کے سامنے پارکنگ میں پیدل چلتا پھرتا رہا۔ میرے گھومنے پھرنے میں عدالت کی کارروائی ختم ہو گئی اور ہم ایک مرتبہ پھر گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑے۔

طارق صاحب نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ امریکا کینیڈا سمیت یورپ بھر میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران آڈیو بُکس کا بہت رواج ہو گیا ہے۔ لوگوں کے پاس وقت کی شدید کمی ہونے کے باعث وہ اکثر کتاب پڑھنے کی رومانی لذت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اسی محرومی کے مدنظر اور ادب کی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی سوچ کے تحت افسانوں، ناولوں اور دیگر کتابوں کو آڈیو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔باذوق افراد ڈرائیونگ کے دوران بھی ان آڈیو بُکس سے پُوری طرح محظوظ ہو سکتے ہیں۔ خود طارق صاحب بھی لمبے سفر کے دوران آڈیو بکس سے لطف اُٹھاتے ہیں اور یوں سفر کی طوالت کی کوفت کو مٹانے میں یہ سمعی کتابیں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے میری تخلیقات کو آڈیو بُکس میں منتقل کیے جانے کا آئیڈیا بھی دیا جس کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے آمادگی ظاہر کی۔  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔