جامعہ کراچی میں ڈیزل مہنگا ہونے کا جواز بنا کر شٹل سروس محدود کردی گئی

صفدر رضوی  پير 27 مارچ 2023
فوٹو فائل

فوٹو فائل

جامعہ کراچی کے شعبہ ٹرانسپورٹ نے ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو جواز بناتے ہوئے یونیورسٹی کیمپس میں شٹل سروس کی نقل و حمل کو محدود کر دیا ہے اور صبح و شام میں شٹل کے اوقات بھی کم کر دیے گئے ہیں جس سے یونیورسٹی میں ایک سے دوسرے شعبوں یا کلیہ جات (فیکلٹی) کی جانب جانے والے طلباء و طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شدید گرمی میں طلبہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں یا پھر کیمپس میں ایک سے دوسرے مقام تک جانے والی پرائیویٹ گاڑیوں سے لفٹ مانگتے نظر آتے ہیں جبکہ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے جامعہ کراچی میں آنے والے افراد کو بھی شٹل سروس خالی ہی ملتی ہے۔

یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب ایچ ای سی کے فنڈز سے خریدی گئی 8 نئی بسیں یونیورسٹی کی شٹل اور پوائنٹ بسوں کا حصہ بن چکی ہیں جبکہ سابقہ سٹی گورنمنٹ کے تحت چلنے والی 4 بسیں بھی حال ہی میں جامعہ کراچی کو دی گئی ہیں۔

دوسری جانب، جامعہ کراچی میں پرائیویٹ شٹل سروس تو موجود ہے تاہم اس کی تعداد پہلے ہی محدود ہے جو طلبہ سے 20 روپے بھی چارج کرتی ہے۔ اس پرائیویٹ شٹل سروس کے پاس صرف 8 گاڑیاں ہیں جبکہ جامعہ کراچی میں صبح اور شام میں 45 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور روزانہ مختلف تعلیمی و تدریسی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں محتاط اندازے کے مطابق مزید کئی ہزار لوگ کیمپس کا رخ کرتے ہیں۔

شٹل سروس کے محدود ہونے کے سبب کیمپس کے اندر ایک سے دوسری جگہ جانے والے افراد مشکلات کا شکار رہتے ہیں اور اس کا فائدہ یونیورسٹی کے اندر موجود رکشا مافیا اٹھا رہی ہے جنھوں نے کیمپس کے اندر باقاعدہ اپنے اسٹینڈ بنا رکھے ہیں اور منہ مانگا کرایا وصول کرکے سواری کو ایک سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ جامعہ کراچی کا محکمہ ٹرانسپورٹ اور اس رکشہ مافیا کے مابین ایک خاموش سمجھوتا ہے جس کے سبب یونیورسٹی میں شٹل سروس اور اس کے اوقات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ صبح کے وقت کراچی کا درجہ حرارت بھی 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے اور اس گرمی کی شدت میں اب رمضان کے آغاز پر طلباء و طالبات حالت روزہ میں پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

اسلامک لرننگ کی ایک طالبہ آمنہ علی نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ وہ اور ان سمیت سیکڑوں ایسے طلبہ ہیں جو اس مشکل کو جھیل رہے ہیں، 10 بجے کے بعد جب ہم اپنے شعبے سے نکل کر کسی دوسرے شعبے یا فیکلٹی میں جانا چاہتے ہیں تو شٹل سروس دستیاب نہیں ہوتی۔

مذکورہ طالبہ نے بتایا کہ اس سے قبل ان کے علاقے منظور کالونی کا پوائنٹ بند کر دیا گیا تھا، اس وقت ٹرانسپورٹ انچارج قدیر محمد علی تھے جنھوں نے ہماری شکایت کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کا ازالہ کیا تھا تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ وہ ریٹائر ہوگئے ہیں، ہم نے نئے انچارج کو اس سلسلے میں درخواست بھی دی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ شعبہ فارمیسی، شعبہ کمپیوٹر سائنس اور شعبہ ابلاغ عامہ کے طلبہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ یہ شعبہ جات اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر اور میٹروول گیٹ کے مابین شاہراہ پر قائم ہیں اور شٹل سروس مفقود ہونے کے سبب کئی کئی کلومیٹر سفر کرنے پر مسکن گیٹ یا سلور جوبلی گیٹ تک پہنچ پاتے ہیں۔

شعبہ فارمیسی کی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’’جب وہ اور ان کے کلاس فیلوز شعبے سے باہر آتے ہیں تو تپتی ہوئی دھوپ میں وہ پیدل چلنے پر مجبور ہوتے ہیں یا 20 روپے دے کر پرائیویٹ شٹل میں بیٹھتے ہیں لیکن پرائیویٹ شٹل بھی کم کم ہی ملتی ہے‘‘۔

واضح رہے کہ آغاز سیمسٹر پر روایتی طور پر جاری ہونے والے شٹل سروس کے شیڈول کے مطابق یہ سروس صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں دستیاب ہونی ہے۔ صبح کے اوقات میں ساڑھے 10 سے 1 بجے تک شٹل سروس زیادہ تعداد میں سلور جوبلی گیٹ، مسکن گیٹ، میٹروول گیٹ اور شیخ زید گیٹ تک چلائی جانی ہے تاہم یہ سروس ساڑھے 9 بجے ہی بند ہوجاتی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ سیکریٹری کا چارج رکھنے والے گریڈ 16 کے ملازم دلدار خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے پہلے تو انتہائی مضحکہ خیز جواز پیش کیا کہ ’’شہر سے طلبہ کو کیمپس لانے والی بسوں کو ورکشاپ میں بھجوا کر ان کی فٹنس چیک کرنی ہوتی ہے کیونکہ دوپہر میں دوبارہ یہ بسیں شہر کی طرف جاتی ہیں اس لیے ہم ساڑھے 9 بجے تک شٹل سروس چلاتے ہیں تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ ماضی میں کیا بسوں کو فٹنس کے لیے ورکشاپ نہیں جانا ہوتا تھا پھر کیسے شٹل سروس دوپہر تک چلتی تھی جس پر انھوں نے انکشاف کیا کہ اب ڈیزل مہنگا ہوگیا ہے ہم طلبہ سے شہر کے مختلف علاقوں کا کرایہ صرف 10 روپے چارج کرتے ہیں اور اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لیے بھی ساڑھے 9 کے بعد شٹل سروس نہیں ہوتی۔

واضح رہے کہ 8 نئی بسوں کی شمولیت کے بعد اس وقت کراچی یونیورسٹی کی 29 بسیں فعال ہیں۔ سابقہ سٹی گورنمنٹ کی بسیں ملنے کے بعد اس کی تعداد 33 اور ورکشاپ میں مرمت کے لیے کھڑی مزید 8 بسوں کو ملا کر یہ تعداد 41 ہوجاتی ہے تاہم سٹی گورنمنٹ کی بسوں کو سی این جی سے ڈیزل انجن پر شفٹ کیا جانا باقی ہے جبکہ ورکشاپ میں مرمت کے لیے کھڑی 8 بسیں فنڈز ملنے کی منتظر ہیں۔ دوسری جانب 6 بسیں علیحدہ ہیں جو ناکارہ ہوچکی ہیں ان کی نیلامی ہونی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔