روسی ادب کے اردو ادب پر اثرات (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 29 مارچ 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

1917کے بالشوک انقلاب کے بعد روسی ادب میں جو انقلاب عظیم برپا ہوا، اس نے ہندوستان کی بیشتر زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کیے اور بطور خاص اردو ادب کے زمین و آسمان بدل کر رکھ دیے۔ سجاد ظہیر، ملک راج آنند اور دوسرے ادیبوں نے 1936میں انجمن ترقی پسند تحریک کی داغ بیل ڈالی۔

اس انجمن کی صدارت ہمارے بزرگ اور نہایت محترم ادیب پریم چند کے حصے میں آئی۔ انھوں نے کہا کہ ادیب یا آرٹسٹ طبعاً اور خلقاً ترقی پسند ہوتا ہے، اگر یہ اس کی فطرت نہ ہوتی تو شاید وہ ادیب نہ ہوتا۔ وہ آئیڈلسٹ ہوتا ہے۔ اسے اپنے اندر بھی ایک کمی محسوس ہوتی ہے اور باہر بھی، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کی روح بے قرار رہتی ہے۔

وہ اپنے تخیل میں فرد اور جماعت کو مسرت اور آزادی کی جس حالت میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اسے نظر نہیں آتی اس لیے موجودہ ذ ہنی اور اجتماعی حالتوں سے اس کا دل بیزار ہوتا ہے۔ وہ ان ناخوشگوار حالتوں کا خاتمہ کردینا چاہتا ہے تاکہ دنیا جینے اور مرنے کے لیے بہتر ہوجائے۔ ترقی کا مفہوم ہر مصنف کے ذہن میں یکساں نہیں۔ جن خیالات کو ایک جماعت ترقی سمجھتی ہے ان ہی کو ایک جماعت عین زوال سمجھتی ہے۔

اس لیے ادیب اپنے آرٹ کو کسی مقصد کے تابع کرنا نہیں چاہتا۔ ترقی سے ہمارا مفہوم وہ صورت حالات ہے جس سے ہم میں استحکام اور قوت عمل پیدا ہو۔ بیشک آرٹ کا مقصد ذوق حسن کی تقویت ہے اور وہ ہماری روحانی مسرت کی کنجی ہے لیکن ایسی کوئی ذوقی اور معنوی یا روحانی مسرت نہیں جو افادی پہلو نہ رکھتی ہو۔ مسرت خود ایک افادی شئے ہے۔

1917 کا بالشوک انقلاب نہ صرف روس کے عوام کے لیے بلکہ ساری دبی کچلی انسانیت کے لیے نئی امیدوں اور حوصلوں کا پیامبر بن کر آیا تھا۔

جاگیرداری، سرمایہ داری اور سامراجیت کی چکی میں نسل در نسل پستے ہوئے محروم و مقہور عوام کو اس انقلاب میں روشنی کی ایک نئی کرن دکھلائی دی تھی۔ ان جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے پریم چند نے گورکھپور سے 12 دسمبر 1919کو نگم صاحب کے نام اپنے خط میں بڑے جذباتی انداز میں فرمایا تھا ’’میں اب قریب قریب بالشوسٹ اصولوں کا قائل ہوگیا ہوں۔‘‘

روسی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ روس کے پس ماندہ عوام کو افلاس، نحوست اور جہالت سے نجات ملے گی اور وہ خود اپنی تقدیر کے مالک ہوں گے۔

چنانچہ پریم چند نے ’’دور قدیم اور دور جدید‘‘ کے عنوان کے تحت ’’زمانہ‘‘ فروری 1919کے شمارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ’’انقلاب سے پہلے کون جانتا تھا کہ روس کی دکھی جنتا میں کتنی طاقت ہے۔‘‘

ان الفاظ کے ساتھ وہ ملک کے استحصالی طبقوں کو چیتاؤنی دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر قوم میں انسانیت اور لاج شرم نہیں ہو تو (بھی) اپنی بھلائی کا تقاضہ ہے کہ ہم ابھی سے جنتا کے دل کو بس میں کرنے کی کوشش کریں۔ مناسب یہی ہے کہ وہ مستقبل کے نقصان کی فکر نہ کر کے کسانوں کی بھلائی اور سدھار کی کوشش کریں کیونکہ آنے والا زمانہ اب جنتا کا ہے اور وہ لوگ پچھتائیں گے جو زمانے کے قدم سے قدم ملاکر نہیں چلیں گے۔‘‘

ہمارے ادب میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، منٹو، سبط حسن، ڈاکٹر رشید جہاں اور محمود الظفراور دوسرے متعدد ادیبوں اور شاعروں نے اردو ادب کے زمین و آسمان منقلب کردیے۔ 1947 میں ملک تقسیم ہوا۔ پاکستان میں بطور خاص کمیونسٹوں کی بہت شامت آئی۔

اس کے ساتھ ہی فیض اور دوسرے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں نے اپنی ہمت جٹائے رکھی۔ ساحر لدھیانوی ابتدائی برسوں میں ہی ہندوستان واپس چلے گئے تھے۔ امرتا پریتم کو بھی فسادات کے نتیجے میں ہندوستان جانا پڑا تھا۔

اردو کا ترقی پسند ادب روسی ادب سے بہت متاثر تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام اس کا واضح ثبوت ہے۔ ترقی پسند ادب کے حوالے سے جاوید اختر لکھتے ہیں ’ ’انجمن ترقی پسند مصنفین‘ ‘یہ چار لفظ سنتے ہی ذہن کے افق پر کتنے ہی ناموں کے ستارے جگمگا اٹھتے ہیں۔ فیض، مجاز، کرشن چندر، مخدوم، عصمت چغتائی، ساحر کیفی، جاں نثار اختر، راجندر سنگھ بیدی، مجروح اور ایسے ہی کتنے ناموں کا ایک سلسلہ ہے جو ایک کہکشاں کی طرح یادوں کے آسمان پر نمودار ہوتا ہے اور ہم حیران سے رہ جاتے ہیں کہ بقول شاعر

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

کیا کیا یاد آجاتا ہے۔ کتنی نظموں کے عنوان کتنی غزلوں کے اشعار کتنے افسانوں کے کردار، ذہن و دل کو گھیر لیتے ہیں۔ کیسی کیسی تصویریں بنتی ہیں۔ یہ بچھتا ہوا روزن زنداں وہ شانہ بنام یہ چاندی کا دست جمیل۔ یہ کسی مفلس کی جوانی وہ کسی بیوہ کا شباب۔ یہ کالو بھنگی کے چہرے پر درد کی لکیر کی طرح بڑھتی شمن کی بے ڈھنگی سی زندگی۔ یہ جلتا ہوا پنجاب وہ کشمیر کے پھول سے بدن پر لگتے ہوئے زخم۔ یہ اودھ کے ایک کچے آنگن میں بیٹھی تنہا لڑکی جس کی چوتھی کا جوڑا سیاست کے صندوق میں بند ہے۔

وہ بمبئی کی فٹ پاتھوں پر جوتا پالش کرتے اخبار بیچتے بے گھر بے در بچے۔ یہ پتھر کی دیوار سے سر ٹکراتے انقلاب کے نعرے۔ وہ کوئی خاموش آواز سے پکارتا ہے۔ کوئی پھر اسی دیوار سے ٹکراتا ہے جسے کل وہ توڑ چکا ہے۔ کہیں شہیدوں کے جسم موم کی طرح پگھل رہے ہیں۔ یہ نئی جگہ ہے یہاں سے آج تک تاج محل کو کس نے دیکھا ہے۔ کوئی اکیلا ہی جانب منزل چلا اور کارواں بنتا گیا۔

24 نومبر 1934 کی شام چند نوجوان مصنفین اور دانشور، لندن کے ایک ریستوران میں ملے۔ اس میٹنگ میں ایک دستاویز پر غور کیا جانا تھا جسے سجاد ظہیر نے تیار کیا تھا۔ اس کا مقصد ہندوستانی زبانوں کے ادب کو نئے موضوعات اور نئی جمالیات سے آشنا کرانا تھا۔ اس میں جو افراد شال تھے ان میں بعض بعد میں مختلف زبانوں کے انتہائی اہم ادیب بن کر ابھرے۔ سجاد ظہیر کے علاوہ جیوتر میاگھوش، ملک راج آنند اور محمد دین تاثیر بھی وہاں تھے جو بالترتیب بنگلہ، انگریزی اور اردو کے معتبر مصنفین کی حیثیت سے جانے گئے۔ میٹنگ میں طے پایا کہ کل ہند ترقی پسند مصنفین کی ایک انجمن کی تشکیل کی جائے۔

اسے عملی شکل دینے کی ذمے داری سجاد ظہیر کو دی گئی۔ 1935 کے وسط تک تحریک کا مینی فیسٹو تیار کرلیا گیا تھا جسے لے کر سجاد ظہیر ہندوستان آئے اور ہندوستان کے اہم مصنفین کی رائے جاننے کی خاطر یہ مینی فیسٹو ان کے سامنے رکھا۔ منشی پریم چند جیسے اردو ہندی کے صف اول کے ادیب نے نہ صرف اس کی ستائش کی بلکہ اس کا ہندی ترجمہ اپنے رسالے ’’ہنس‘‘ میں چھاپا بھی۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس 13؍ اپریل 1936 کو لکھنؤ میں ہوئی اور اس میں اس اعلان نامے کو منظوری دی گئی۔ اس اعلان نامے میں ایک جگہ ان الفاظ میں ہندوستانی ادیبوں کی سماجی ذمے داری پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

’’ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہار کریں اور ادب میں سائنس عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے اس قسم کے انداز تنقید کو رواج دیں جس سے خاندان، مذہب، جنس، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسندی اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جاسکے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے رجحانات کی نشوونما کو روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

پریم چند گئے۔ ان کی کہانیاں آج تک زندہ ہیں۔ ان کے بعد علی عباس حسینی، روشن اور سہیل عظیم آبادی جیسے لکھنے والے ہمارے درمیان آئے۔ منٹو نے موذیل، کالی شلوار، ’’اور کھول دو‘‘ ایسے افسانے لکھے۔ کرشن چندر ’کچرا بابا، مہالکشمی کا پل، داد رپل کے بچے اور غدار‘ جیسے شاہکار لکھے۔ ہم اگر غور سے روسی ادب کا مطالعہ کریں تو آج بھی ہمارے بہت سے ادیب اور شاعر اس کے دائرۂ اثر سے باہر نظر نہیں آئیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔