جئیں تو کیسے جئیں

شکیل فاروقی  منگل 9 مئ 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے لیکن ذرا غور فرمایے تو آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ یہ کتنا اسلامی ہے اور کتنا جمہوریہ ہے۔ دین اسلام جن چیزوں سے بچنے کا درس دیتا ہے وہ سب یہاں کثرت سے موجود ہیں۔ اِس کی سب سے بڑی مثال سودی نظام ہے جو بالکل حرام ہے۔

رشوت خوری عام ہے جسے اسلام میں سختی سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹ بولنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں سارا کاروبار جھوٹ ہی پر چلتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹ کا چلن عام ہے۔

آپ خود اندازہ کریں کہ ہماری حالت کیا ہے اور ہم کس طرح کے مسلمان ہیں، اگر یہی حال رہتا ہے تو آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ وطن عزیز اسلامی کیسے ہوا ؟ اب لفظ ’’ جمہوریہ ‘‘ کی باری ہے۔ ہر سیاسی پارٹی میں کوئی نہ کوئی شخص ایسا ہوتا ہے جو من مانی کرتا ہے اور اختلاف کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔

ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

سوال یہ ہے کہ اگر گدھے کو برا کہا جائے تو کیا یہ درست ہوگا ؟ وطن عزیز میں یہ کھیل کب سے کھیلا جا رہا ہے۔ شاید عوام اندھے ہیں کہ اْنہیں کھلاڑی ایسا ہی سمجھ رہے ہیں۔

مغرب میں جو جمہوری نظام ہے اور جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے اور ابراہم لنکن نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے کیا ہمارا جمہوری نظام اْسی جیسا ہے؟

علامہ اقبال نے اْس کے حوالہ سے جو کچھ فرمایا ہے وہ پورا سچ ہے:

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

اِس سے آگے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ ہمارے ہاں چلن یہ ہے کہ ’’ نوٹ لو اور ووٹ دو‘‘ جمہوریت بیچاری حیران و پریشان ہے کہ اْس کے ساتھ کیسی بدسلوکی اور زیادتی کی جا رہی ہے اور بھلا وہ اور کیا کرے؟

پاکستان یکے بعد دیگرے کسی نہ کسی مشکل میں پھنسا رہتا ہے۔ کبھی کچھ کبھی کچھ۔ سلام ہو اِس کے عوام کو کہ وہ بیچارے بدلتے ہوئے حالات میں اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی اچھا وقت بھی دیکھیں گے۔

رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا

کس کے روکے رْکا ہے سویرا

چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام جوں کا توں رہتا ہے۔ جب تک نظام نہیں بدلے گا اْس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ خان صاحب کی پچھلی حکومت میں عوام سے جو وعدے کیے گئے تھے۔

اْن میں سے کونسا وعدہ پورا کیا گیا ؟ عوام کو کیا حاصل ہوا ؟ کہا گیا تھا کہ بیروزگاروں کو لاکھوں نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور غریبوں کے لیے ہزاروں مکان دیے جائیں گے لیکن نتیجہ آخر وہی نکلا جس کا اندیشہ تھا یعنی صِفر کا صِفر!مان لیجیے کہ غریب آدمی کی کْل آمدنی زیادہ سے زیادہ 40,000 روپے ماہانہ ہے جب کہ اْس کا خاندان دو میاں بیوی اور تین چار بچوں پر مشتمل ہے تو وہ اپنا پیٹ کاٹنے کے باوجود کیسے گزارہ کرسکتا ہے جس میں مکان کا کم سے کم کرایہ 12,000 روپے ماہانہ ہے اور جس میں 4000 روپے ماہانہ دوا دارو پر خرچ ہوجاتے ہیں۔

اِس کے علاوہ بجلی اور گیس کا بِل کم سے کم آٹھ ہزار روپے ماہانہ ہے جب کہ پٹرول کی کم سے کم قیمت 4000 روپے بنتی ہے۔ روٹی کے ساتھ کھائے جانے والے سالن کے اخراجات کم سے کم 15000 روپے ماہانہ ہیں۔ اِس کے علاوہ دیگر اخراجات ہیں جس میں کپڑا لتہ اور بچوں کی تعلیم شامل نہیں ہیں۔ اب حکمراں یہ بتائیں کہ انسان جئے تو کیسے جئے؟ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔