غصہ

بات نہ جانے کہاں سے ابھری تھی جو غصے سے مسموم پھر کہاں سے کہاں جا پہنچی تھی۔ یہ شدید جذبہ ہے جو انسان کے مزاج میں یک لخت تبدیلی پیدا کردیتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے نفسیاتی مسئلہ ہے، جذباتی ہیجان اس کا باعث ہے۔ درحقیقت اس عمل کے پس پشت اس قدر معلومات کا خزینہ پوشیدہ ہے کہ انسان بار بار اس میں الجھ جاتا ہے۔

ہم کئی بار اپنے آپ پر بھی حیران ہوتے ہیں کہ آخر کسی بھی معمولی سی بات، ناراضی، رنجش یا ناگواری پر ہمیں اس قدر کا غصہ کیوں آیا، ایسا کیا تھا کہ جس کے باعث ہمارا اپنا آپ ہمیں سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا لیکن اس کا نتیجہ انتہائی مہلک ثابت ہوا۔

مثلاً انتہائی صورتوں میں ہارٹ اٹیک، فالج یا بلند فشار خون بہت سے ذیابیطس کے مریض اپنی شکر کا معیار بڑھنے کی شکایت کرتے ہیں، یہ کیوں ہوتا ہے۔ زندگی میں ہم بارہا ایسے مسائل و مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں جب ہمیں اپنے وجود میں ناگواریت، چڑچڑاپن اور غصے کے اثرات ابھرتے محسوس ہوتے ہیں۔

ہم خود بھی نہیں جانتے کہ اس قدر معمولی بات پر ہم شدید ردعمل کیوں ظاہر کر رہے ہیں، جو کئی بار ہماری شخصیت پر اثرانداز ہو کر معاشرے میں ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔آج کل کے مسائل اور حالات اس قدر دشوار ہو رہے ہیں کہ بہت سے تحمل مزاج، حضرات بھی اسی بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔

گزشتہ دس برسوں کے دوران دنیا بھر کی خواتین تناؤ کا شکار ہوگئی ہیں اور ان میں غصہ بڑھا ہے، ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں ایک گیلپ سروے کے دس سالہ ڈیٹا کی بنیاد پر کیے گئے اس سروے میںیہ انکشاف حیران کن تھا۔ کہا یہ جا رہا ہے خواتین مردوں کے معاملے میں زیادہ حساس ثابت ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں اداسی، فکر مندی، تناؤ کی کیفیات جلد واضح ہوتی ہے۔

کورونا کی وبا کے باعث اس شرح پر بھی اثر پڑا ہے اور مردوں اور خواتین کے درمیان یہ واضح دیکھا گیا ہے۔آج کل کے جدید دور میں جہاں انسان نے مشینی انداز سے زندگی گزارنا شروع کردی ہے روزمرہ کی خوراک میں بہتات سے ان اشیا کا استعمال شروع کردیا ہے آج سے برسوں پہلے شادی بیاہ کی تقریبات میں مستفید ہوتے تھے اس سے یکسر مختلف انداز کی زندگی نے جہاں اسے سہل بنا دیا ہے وہیں پر تعیش اشیا نے انسانی طبیعت میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔

غصے کے اظہار سے انسانی جسم کا ایڈرنل غدود جو جسم کے مختلف اعمال میں باقاعدگی پیدا کرتے ہیں اور تلی، جگر، گال بلیڈر، نظام ہاضمہ اور دیگر رطوبتوں میں معاون ہوتے ہیں۔ یہ اہم غدود ہی دراصل انسان میںجانچنے، پرکھنے، سخت محنت کرنے، امنگ اور اندرونی قوتوں، مہم جوئی اور دیگر تخلیقی صلاحیتوں کو کنٹرول کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔

غصے کے اچانک اثر سے فوری متاثر ہوتا ہے اور انسان ایسی حرکات و اسکنات کا مرتکب ہو جاتا ہے جو اس نے تصور میں بھی نہ سوچا ہو۔عام طور پر یہ ایڈرنل غدود صحیح انداز پر کام نہ کرے تو انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے غلط راہیں اپنا کر اپنی قوتیں ضایع کردیتا ہے۔ ایسے لوگ منافق کہلاتے ہیں، وہ سماج دشمن اور بے چین ہو جاتے ہیں، معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہو جاتے ہیں ، ایسے افراد میں نظام ہاضمہ،بلڈ پریشر یا سانس کی بیماریاں بھی شکایات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔

انسانی جسم کے اندر ایک ایسا عجائب خانہ جس کے اندر ان گنت ایسے باریک نقطے ہیں جن کو سلجھانا انسانی سائنس کے بس سے باہر ہے یہ ایک انتہائی گتھی ہے جسے صرف بیان کیا جاسکتا ہے اور مختلف کیمیائی ادویات کے ذریعے کسی ایک مدت تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد ردعمل کے طور پر دوسرے عضویات یا رطوبتیں کیسے متاثر ہوتی ہیں یہ ایک توجہ طلب عمل ہے جس پر تحقیقات جاری ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق کہا جاتا ہے کہ غصے کی بنیادی چار وجوہات فرسٹریشن، چڑچڑاہٹ، ناانصافی اور بدسلوکی ہے۔

پرتعیش زندگی جہاں کسی طبقے کے لیے سکون کا باعث ہے وہیں دوسرے طبقات کے لیے ان کی زندگی فرسٹریشن، چڑچڑاہٹ پیدا کرتی ہے، طبقات کا یہ فرق عام زندگی سے لے کر ٹی وی اور سوشل میڈیا کی چکا چوند تک ہر دن نت نئی شرارتیں لے کر ابھرتا ہے جس نے عام لوگوں میں ان کے رہن سہن کی رسائی آسان کردی ہے اور ان جیسا بننے کی خواہش کو اس حد تک بام عروج پر پہنچا دیا کہ جس نے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور غاصبانہ جذبات کو ہوا دی ہے۔

ہم عام زندگی میں بھی اپنے ساتھ ان تمام منفی رویوں، خیالات اور احساسات کے بوجھ کو لے کر چلتے پھرتے ہیں اور جہاں کہیں ہمیں ان کے اظہار کا مقام ملتا ہے اسے فوراً کچھ نہ کچھ اتار کر چلتے چلے جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بنا کہ لمحہ بھر کی ملاقات، ایک ناگوار تاثر، ایک ناگوار رویہ، بات یا اظہار دوسرے انسان پر اس کے کس قدر منفی تاثرات پیدا کر سکتا ہے جو اس کی ساری زندگی تک قائم رہ سکتا ہے۔انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور غصہ اس کا ایک ایسا ٹریگر ہے جو وہ انسان کے ہاتھ میں تھما کر اس کے چلنے اور پھٹنے کے مزے لیتا ہے۔ نقصان صرف انسان کا ہی ہوتا ہے۔

آج کل ہمارے ملک میں جس مایوس کن صورت حال کا سامنا ہے ایسے میں ٹی وی چینلز کی مایوس کن رپورٹیں، تبصرے اور مباحثے، مہنگائی کا تیزی سے بڑھتا رجحان، مقابلے کا غیر صحت مندانہ رجحان اور مادیت پرستی نے بحیثیت قوم ہماری عوام میں غصے کے رجحان کو کچھ اس انداز سے ہوا دی ہے کہ ہر چلتا پھرتا شخص اپنے اندر کی کڑواہٹ کو لمحہ بھر میں عیاں کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ چاہے وہ کوئی بڑا سرکاری افسر، بیوروکریٹ ہو یا ایک عام سا ٹھیلے والا۔ کس قدر عجیب سی صورت حال ہے کہ سب کے جذبات و غصے کی حالت انتہائی درجوں پر لمحوں میں چلی جاتی ہے۔

نتیجتاً ایک دوسری منفی صورت حال ابھرتی ہے جو پہلے سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ آپ درگزر کریں، راہ چلتے، گاڑی چلاتے الجھنے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مسکرائیں، معذرت کریں، شکریہ ادا کریں، آپ کو اس کے حیرت انگیز نتائج ملیں گے، کرکے دیکھیے۔ کیوں کہ ہمارا رب ہماری کس قدر کی خطاؤں کو درگزر کرکے اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے تو پھر ہم اپنے خالق کے اس حسن سلوک کو اپنا کر کیوں نہیں دیکھتے، کرکے تو دیکھیے!