شہر میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا بورنگ کرنیوالوں کی چاندی ہوگئی

واٹربورڈمیں اہم عہدوں پر تعینات غیرتربیت یافتہ افسران اور والو مین کی ملی بھگت سے شہری پانی سے محروم


Staff Reporter April 24, 2014
شہر میں پانی کی شدید قلت کے باعث ناظم آباد کے علاقے میں پانی کے حصول کے لیے گلی میں بورنگ کی جا رہی ہے. فوٹو: ایکسپریس

شہر بھر میں پانی کا بحران خوفناک شکل اختیار کرگیا،ٹینکر مافیا، کنواں اور بورنگ کرنے والے منہ مانگے دام وصول کرنے لگے۔

تفصیلات کے مطابق واٹر بورڈ کی جانب سے شہر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے ناغہ سسٹم رائج کیا گیا ہے جس کے تحت شہر کے مختلف علاقوں میں2 سے 3دن کے بعد پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا، واٹر بورڈ کی نااہل انتظامیہ ،اہم عہدوں پر تعینات غیر تربیت یافتہ افسران اور والو مین کی ملی بھگت سے شہر بھر میں پانی کا بحران نہ صرف خوفناک شکل اختیار کرگیا بلکہ پانی کو ترسے ہوئے شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن گئے ہیں بحران کا سب سے بڑا ذمے دار واٹربورڈ کا ٹیکنیکل سروسز ڈپارٹمنٹ ہے جس کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نجم عالم کی نااہلی کا خمیازہ پورے شہر کو بھگتنا پڑ رہا ہے اگر اس عہدے پر کسی سینئر اور اہل افسر کو تعینات کردیا جائے تو شہر میں صورتحال کافی حد تک معمول پر آسکتی ہے۔

شہر میں پانی کے بدترین بحران کے بعد جہاں ٹینکر مافیا کا راج ہے وہیں پر کنواں کھودنے اور بورنگ کرنے والوں نے بھی منہ مانگے دام وصول کرنا شروع کردیے ہیں، مختلف علاقوں میںکنویں کی کھدائی کے لیے 1200 سے 1500 روپے فٹ طلب کیے جا رہے ہیں اور کنویں کی کم از کم 30 فٹ تک گہرائی کا خرچہ 36ہزار سے45 ہزار روپے آتا ہے،کنویں میں لگائے جانے والے پی وی سی پائپ اور دیگر سامان کی خریداری کا خرچ علیحدہ سے ہے جو کہ ہزاروں روپے بنتا ہے اسی طرح شہر میں پانی کے بدترین بحران کو دیکھتے ہوئے ہائیڈرولک مشینی بورنگ اور ڈرل مشین بورنگ کرنے والے بھی پانی کے ستائے ہوئے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔

مشینی بورنگ کے350سے 300روپے فٹ طلب کیے جا رہے ہیں اورکم ازکم 30 فٹ تک بورنگ کے ساڑھے 10ہزار سے 9 ہزار روپے تک طلب کیے جارہے ہیں،ڈرل مشین کے ذریعے کی جانے والی بورنگ میں سامان سمیت 25 فٹ تک بورنگ کے 10 سے 12ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں،واٹر بورڈ کے نااہل افسران کی جانب سے شہر بھر میں پیدا کیے جانے والے پانی کے بدترین بحران اور پانی کے حصول کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد کنویں اور بورنگ کے ذریعے روزمرہ پانی کی ضرورت کو پورا کررہے ہیں وہیں پر اخراجات کو اپنے بجٹ کے مطابق لانے کے لیے کئی علاقوں میں اجتماعی طور پر محلے کے 3 سے 6 گھر آپس میں مل جاتے ہیں ۔

مقبول خبریں