ابرارالحق کے آنسو

تنویر قیصر شاہد  پير 29 مئ 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جناب ابرارالحق پی ٹی آئی ، سیاست اور عمران خان سے تعلق و ناتہ توڑتے ہُوئے ، سب کے سامنے، اشکبار ہو گئے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران یہ منظر دلشکن بھی تھا اور دُکھ بھرا بھی۔اِس انجام کا کسی نے سوچا تک نہ تھا۔اُن کے سیاسی میدان سے نکلنے کا شاید سب سے بڑا اور فوری فائدہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کو پہنچے گا۔

54سالہ جناب ابرارالحق کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ آپ پی ٹی آئی کے معروف سیاستدان ہیں۔ انھوں نے حلقہ دار ، انتخابی سیاست کی ہے۔

ضلع نارووال سے پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر، مشہور نون لیگی سیاستدان جناب احسن اقبال کے مقابل، دو بارقومی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے ہیں۔ احسن اقبال کی زبردست مقبولیت کے سامنے مگر اُن کی انتخابی سیاست کا چراغ نہ جل سکا۔ ابرارالحق دونوں بار ناکام رہے مگر دل نہ ہارے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کی محبت و عقیدت دل میں بسائے میدانِ سیاست میں ڈٹے رہے۔

عمران خان اُن کی عقیدت اور محبت کو قدر کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ابرارالحق2018کے عام انتخابات میں بھی ضلع نارووال سے شکست کھا گئے تو خان صاحب نے وزیر اعظم بن کر اُن کی تالیفِ قلب کے لیے انھیں پاکستان ہلالِ احمر(PRCS)کا چیئرمین بنا دیا ، حالانکہ اُس وقت ’’پاکستان ہلالِ احمر‘‘ کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب بہت اچھے اسلوب میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

وزیر اعظم عمران خان اور صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ڈاکٹر سعید الٰہی کو بے جا طریقے سے ہٹا کر ابرارالحق کو چیئرمین بنا دیا۔ بعدازاں PRCSکے چیئرمین کی حیثیت میں ابرارالحق کا (ستمبر2022کو)ہٹایا جانا بھی ایک الگ دلچسپ داستان ہے۔

ابرارالحق پاکستان کے نامور گلوکار بھی ہیں۔ پنجابی اور اُردو زبانوں کے مقبول و محبوب گلوکار۔ پاکستان کی انٹرٹینمنٹ ورلڈ میں انھوں نے اپنی محنت و قابلیت سے اپنا منفرد نام اور مقام بنایا ۔ چند سال قبل جب انھوں نے پنجابی زبان میں ’’بِلّو دے گھر‘‘ گانا گایا تو یہ پاکستان اور بھارتی پنجاب میں اِسقدر مقبول ہُوا کہ اِس گانے کی تین کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہُوئیں۔ شاید اِسی کی بنیاد پر انھیں King of Pakistani Popکا خطاب بھی دیا گیا۔

ابرارالحق صاحب پی ٹی آئی کے بڑے بڑے جلسوں میںپی ٹی آئی کے گانے اور ترانے گا کر خان صاحب اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دل گرماتے ، برماتے رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے ابرارالحق کو پی ٹی آئی میں ایک خاص پہچان اور مشہوری ملی۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی کے لیے اُن کی گرمجوش گلوکاری اور گیت نگاری نے انھیں عمران خان کے زیادہ قریب کر رکھا تھا تویہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی گلوکاری اور اپنی ذات پی ٹی آئی کے لیے وقف کررکھی تھی۔

شاید عمران خان کو ابرارالحق کے یوں جدا ہونے پر کوئی رنج اور شکوہ نہ ہو کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ’’ اِن لوگوں کو جبریہ پی ٹی آئی سے چھڑوایا جا رہا ہے ۔‘‘ہم مگر بالیقین نہیں کہہ سکتے کہ پاکستانی اشرافیہ کے تعلیمی ادارے، ایچی سن کالج کے سابق اُستاد، ابرارالحق پر کسی جبریہ قوت نے اپنا جادُو پھونکا ہوگا۔

عمران خان اور ابرارالحق، دونوں میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے ۔ دونوں وطنِ عزیز کے معروف فلنتھروپسٹ ہیں ۔ دونوں نے اندرونِ ملک و بیرونِ ملک مخیر پاکستانیوں کے چندوں اور عطیات سے غریب اور مستحق مریض عوام کی دستگیری کے لیے اسپتال استوار کیے۔

ابرارالحق نے اپنے آبائی شہر اور اپنے سیاسی حلقہ، نارووال ، میں اپنی والدہ محترمہ کے اسمِ گرامی پر(صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلیکس SSMCN) ایک شاندار اسپتال تعمیر کیا (خان صاحب کا کینسر اسپتال بھی تو اُن کی والدہ محترمہ کے نام سے موسوم ہے)۔ ابرارالحق کا یہ اسپتال200بیڈ پر مشتمل ہے اور اب اِس کے ساتھ ایک نجی میڈیکل کالج بھی بن چکا ہے۔

عمران خان نے جہاں اپنی سماجی خدمات اور کینسر اسپتال کو سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے بطور ایک سیڑھی استعمال کیا ہے، وہیں ابرارالحق نے بھی اپنے قائد کے تتبع میں اپنے اسپتال کو سیاست و اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش تو کی لیکن وہ حسبِ توقع کامیاب نہ ہو سکے ۔

نارووال کے عوام اُن کی طبّی خدمات کے قائل تو ہیں لیکن اکثریتی نارووالی عوام نے اپنے حلقے کا تاج ابرارالحق کے سر رکھنے سے دونوں بار انکار کر دیا۔ ابرارالحق اپنے آبائی علاقے اور حلقے کے عوام کے اِس سلوک سے بددل ہو چکے تھے؛ چنانچہ انھوں نے نارووال سے نکل کر اب لاہور کے مضافات ، شاہدرہ، سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کررکھا تھا، لیکن وائے افسوس کہ الیکشن سے قبل ہی ابرارالحق آنسو بہاتے ہُوئے سیاست اور انتخابات کو خیر باد کہہ گئے۔

پی ٹی آئی اور عملی سیاست سے تعلق منقطع کرتے ہُوئے ابرارالحق صاحب لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران دونوں ہاتھوں میں سر دے کر جس طرح روئے ہیں، کوئی بھی اِس کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔ ایسا مگر ہُوا ہے ۔ اچھی بات مگر یہ ہے کہ ابرارالحق نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو الوداع کہتے ہُوئے خان صاحب پر کوئی الزام نہیں دھرا ہے۔

اگر وہ بھی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان کی طرح 9مئی کا سارا ملبہ اور نزلہ عمران خان پر ڈال دیتے تو خان صاحب کیا کر سکتے تھے ؟ کوئی بھی اُن کی زبان نہیں روک سکتا تھا۔ ابرارالحق کے آنسوؤں کے پیش منظر میں ہم انھیں ’’تھُڑ دل‘‘ اور ’’کم ہمت‘‘ تو کہہ سکتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے(سابقہ) قائد پر کوئی تہمت نہیں لگائی ۔یہ بھی غنیمت ہے !

کیا اِسے بے وفائیوں کا موسم کہیں یا گرم ہواؤں کا شاخسانہ یا پُر اسرار دباؤ کا نتیجہ؟پی ٹی آئی کے بڑے بڑے بُرج گرگئے ہیں۔کوئی سیاست ہی سے تائب ہونے کا اعلان کرتا دکھائی دے رہا ہے اور کوئی وقتی طورپر خاموش رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ کوئی عمران خان اور پی ٹی آئی سے کامل جدائی کا اعلان کرتے ہُوئے یہ اعلان کرتا سنائی دے رہا ہے کہ ’’مَیں اپنی ضعیف والدہ کی مکمل خدمت کے لیے خود کو وقف کر دوں گی ‘‘اورکوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ مَیں اپنے سرطان کے شکار بیٹے کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہُوں‘‘۔ کچھ پُراسرار ہُوا ضرور ہے۔

طنازکہہ رہے ہیں کہ ’’ پی ٹی آئی جہاں سے آئی تھی ، وہیں واپس چلی گئی ہے۔‘‘ گرم ہوا کے آزمائشی جھونکوں نے پی ٹی آئی کے کئی پھولوں کو کمہلا کر رکھ دیا ہے ۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سیاستدان اور وابستگان چھاتی بجاتے ہُوئے کہتے سنائی دے رہے ہیں: ’’ہمیں عمران خان کے جبریہ دَور میں دو دو سال جیلوں میں قید رکھا گیا، ہمیں مرسڈیزوں میں عدالتوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا تھا بلکہ تنور بنی بکتر بند گاڑیوں میں ہمیں ڈھور ڈنگروں کی طرح ڈھویا جاتا تھا، ہمارے خلاف جعلی مقدمات بنائے گئے ، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو قیدو بند کی سزائیں دی گئیں ، لیکن ہم گھبرائے نہ روئے اور نہ ہی اپنی پارٹیوں سے بے وفائیاں کیں ۔‘‘

یہ دعوے بے جا نہیں ہیں ۔ مگر پی ٹی آئی اور عمران خان بارے حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے ۔ابھی موسم جب چھٹے گا، گدلی فضا جب نتھرے گی ، دباؤ جب مدہم پڑے گا، دُھند جب ماند پڑے گی ، تب کہا جا سکے گا کہ ابرارالحق، مراد راس، ملیکہ بخاری ،شیریں مزاری ایسے پی ٹی آئی اور عمران خان کے عشاق یوں برسرِمجلس روئے کیوں تھے؟انھیں رُلانے والے کون تھے؟تب شاید اصل روزِ حساب طلوع ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔