کیا امریکی جنگیں ناگزیر تھیں؟

غلام محی الدین  ہفتہ 3 جون 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

دوسری جنگ عظیم جدید تاریخ انسانی کا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے عالمی نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس جنگ نے جہاں دنیا میں طویل عرصے سے موجود نو آبادیاتی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا وہیں عالمی طاقتوں کی بالکل نئی صورت گری کی بھی بنیاد رکھ دی۔

اسی عالمی تصادم کے نتیجے میں دنیا میں امریکا کی صورت میں ایک نئی سپر پاور اُبھر کر سامنے آئی۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ عالمی طاقت کی حیثیت حاصل ہو جانے کے بعد سب سے بڑا چیلنج اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

امریکا کو واحد عالمی طاقت کا امتیاز حاصل کرنے کے لیے موافق ماحول میسر آیا۔دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف بننے والے اتحاد کے صرف ایک رکن سوویت یونین (روس) کے سوا باقی سبھی اہم ملکوں نے امریکا کو سب سے بڑی عالمی طاقت کے سنگھاسن پر بٹھانے میں رکاوٹ بننے کے بجائے معاونت فراہم کی۔

جب دوسری جنگ عظیم کی گرد بیٹھنے لگی تو جرمنی پر تسلط کے لیے جنگ کے دوران ہی شروع ہو جانے والی کھینچا تانی سے پیدا ہونے والا امریکا ، روس تصادم باقاعدہ سرد جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ تب سے لے کر آج دن تک تاریخ ہمیں بار بار باور کراتی ہے کہ امریکا کسی دشمن کے بغیر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔

یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ اس تصور کے پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بچار کا عمل دخل نہ ہو کیونکہ اگر کوئی حقیقی دشمن واقعی موجود نہ ہو تو امریکا خود اپنے سے کوئی دشمن گھڑ کر کھڑا کر لیتا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکا نے کمیونزم کو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا اور امریکا کے ساتھ تمام مغربی بلاک اس دشمن کو زیر کرنے کے لیے دنیا کے طول و عرض میں برسرپیکار ہو گیا۔

دنیا میں جہاں جہاں کمیونزم کی سیاسی برتری کا اندیشہ پیدا ہوا امریکا وہاں وہاں مادی اور عسکری وسائل کے ساتھ تصادم میں کود پڑا۔ کوریا اور ویت نام کی جنگیں کمیونزم کا راستہ روکنے کے نام پر لڑی گئیں‘ جب کہ چین اور روس کو مجبوراً ان علاقوں میں اپنی نظریاتی اساس کو بچانے کے لیے مقابلے میں آنا پڑا۔

افغانستان میں شکست کے بعد سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا تو دنیا نے سُکھ کا سانس لیا۔ لیکن اب امریکا نے ایک نئے عالمی خطرے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا اور وہ تھا اسلامی بنیاد پرستی۔ جلد ہی اس کے اندر سے اسلامی دہشت گردی برآمد ہوئی اور پھر پوری دنیا میں اسلامی دہشت گردی کے خاتمے کی مہم امریکا کی قیادت میں زور و شور سے جاری ہو گئی۔

امریکا نے شام‘ لیبیا‘ مصر‘ افغانستان اور عراق سمیت بہت سے ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ ہم افغان جنگ میں اتحادی ہونے کے باوجود امریکا فضائی حملے سہتے رہے۔ امریکا کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ وہاں سرکاری پالیسیوں اور خارجہ امور میں امریکا کی من مانی پر زبان بندی نہیں کی جاتی، لیکن دوسری طرف عالمی سیاست میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔

جہاں امریکا نے خود اپنے ہی ریاستی قوانین سے بچنا ہوتا ہے وہاں ’گوانتاناموبے‘ کی ’’سہولت‘‘ بھی انھیں حاصل ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا کے ’روہڈآئی لینڈ‘ کی ’براؤن یونیورسٹی کے تحت کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے واٹسن انسٹیٹیوٹ نے 9/11 کے بعد دنیا بھر میں اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی جنگ کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس کی تفصیلات ہوشربا ہیں۔

اس رپورٹ کو How Death Overlives War: The Reverberating Impact Of Post 9/11 War To Human Health. کا نام دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکی جنگوں میں اسلحہ اور گولہ بارود کے استعمال کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے لوگوں سے کئی گنا زیادہ لوگ ان ملکوں کے بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں کی تباہی اور معاشی ابتری کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان جنگوں میں ’جو عراق‘ افغانستان‘ شام‘ یمن اور پاکستان میں لڑی گئیں‘ اب تک 45 لاکھ بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ اموات بدستور جاری ہیں۔

ان ہلاکتوں میں 36 سے 37لاکھ وہ لوگ ہیں جو براہ راست جنگی کارروائیوں میں ہلاک نہیں ہوئے بلکہ ان کی اموات جنگی سے پیدا ہونے والی معاشرتی اور معاشی ابتری کی وجہ سے ہوئیں۔ یہ رپورٹ ’کاسٹ آف وار پروجیکٹ‘ کے تحت مرتب کی گئی ہے۔

اس پروجیکٹ کی ڈائریکٹر اسٹیفنی سیول کا کہنا ہے ’’آج ہم یہ بات کرتے ہیں کہ امریکا افغانستان سے نکل آیا، تو بات ختم ہوگئی‘ لیکن ایسا نہیں ہے، جو لوگ اس ملک میں رہ رہے ہیں وہ مسلسل جنگ کی تباہ کاریوں کو جھیل رہے ہیں اور نقصان بدستور جاری ہے‘‘۔

اس رپورٹ پر چین کی ساؤتھ ویسٹ یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لاء چونگ کنگ میں شعبہ انسانی حقوق کے پروفیسر منگ چنگ تاؤ نے بھی ردعمل کا اظہار کیا۔

یہ ردعمل اس لیے اہم ہے کہ سرکاری میڈیا میں اسے جگہ دی گئی اور چین کے سرکاری میڈیا میں جگہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ چین کے سرکاری موقف ہی کا اظہار ہے۔ منگ کہتے ہیں ’’جنگ سے بالواسطہ نقصان اصل جنگ کے بعد کا المیہ ہے۔ 2021 میں اسی یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ ان جنگوں نے 3کروڑ 80لاکھ لوگوں کو بے گھر اور دربدرکیا اور یہ تعداد دوسری جنگ عظیم سمیت سال 1900 سے لے کر اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ منگ کا کہنا ہے کہ جنگوں کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی حکمت عملی نے اُلٹا دہشت گردی کو بڑھاوا دیا ہے۔

دہشت گردی عموماً مُٹھی بھر لوگوں کی ذاتی کارروائی ہوتی اس کی سزا کسی خود مختار ریاست کو نہیں دی جا سکتی۔ امریکی جنگوں کے نتیجے میں امریکا نے خودمختار ریاستوں کے اقتدار اعلیٰ کی توہین کی ہے‘‘۔

رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ 3لاکھ 87ہزار شہری تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔ 7ہزار 50 امریکی فوجی مارے گئے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا دنیا کے 85ممالک میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے جس سے جنگ کا دائرہ مزید پھیلا۔ 9/11 کے بعد کی جنگی کارروائیوں نے منفی موسمی تغیرات کو غیر معمولی بڑھاوا دیا ان کے نتیجے میں انسانی حقوق کی حالت دگرگوں ہوئی۔

عراق اور افغانستان میں تعمیر نو کے لیے دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ سیکیورٹی فورسز کو مسلح کرنے پر خرچ ہو گیا۔ عراق‘ افغانستان‘ شام اور پاکستان سمیت عالمی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر اب تک 8ٹریلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جس سے امریکا کی اپنی معیشت پر دباؤ آیا۔

رپورٹ کا اختتام اس تجزیے پر کیا گیا ہے کہ امریکا کے پالیسی سازوں نے 9/11 کے واقعات کے بعد جنگ سے ہٹ کر دیگر طریقوں پر غور ہی نہیں کیا۔ نہ عراق پر چڑھائی سے پہلے متبادل طریقے زیر بحث لائے گئے۔ دہشت گردی کے تدارک کے لیے جنگ سے ہٹ کر متبادل طریقے اب بھی عملدرآمد کے لیے میسر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔