وش کنیا، زہریلی لڑکی (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق  بدھ 7 جون 2023
barq@email.com

[email protected]

وش کنیا یعنی زہریلی لڑکی یا لڑکیوں کا ذکر اکثر ہندی اساطیراورکہانیوں میں آتاہے، خاص طور پر چندرگیت موریا کے مشہور مشیر و وزیر ’’چانکیہ‘‘ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وش کنیا اسی کی ایجاد ہے چانکیہ یاکوٹلیہ چندر گیت موریا دورکا ایک مشہور دانشور تھا جس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ایک مشہورعالم کتاب ہے۔

روایتوں کے مطابق کسی بچی کو جب ’’وش کنیا‘‘ بنانا ہو تو شیرخوارگی ہی سے اسے تھوڑا تھوڑا زہرکھلانا شروع کیاجاتاہے، عمر بڑھنے کے ساتھ زہرکی مقدار میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے، اسی طرح وہ جب جوان ہوتی ہے تو وش کنیا یا زہریلی لڑکی بن چکی ہوتی ہے، پھر اسے دشمنوں کے پاس بھیج کر اس کے ذریعے انھیں قتل  کیاجاتا ہے کہ زہریلی لڑکی سے جنسی تعلق قائم ہوتے ہی وہ مرجاتے تھے۔

سب سے پہلے تو یہ خیال ہی لغو ہے ،کوئی بھی عورت اگر کسی مرد کی خلوت تک پہنچ جاتی ہے تو وہ کسی بھی طرح اگر چاہے تو اسے ہلاک کرسکتی ہے، پھر دونوں صورتوں میں عورت زہریلی ہویا نہ ہو ، انجام بھی دونوں کا ایک جیسا ہوسکتاہے یا تو پکڑی جائے گی اور یا فرار ہونے میں کامیاب ہوجائے گی، مطلب یہ کہ صرف ہلاک کرنے کے لیے اتنا طویل گھڑاگ پالنے کی کیا ضرورت ہے۔

لڑکی کو زہرکھلاکھلا کر زہریلی بنانا دراصل وش کنیا یا زہریلی لڑکی کا یہ مفروضہ اس لیے بھی چلاہے کہ اس میں لڑکی عورت اورخلوت یاجنسی عمل کا ایک رومانوی تصوربھی ہے جو مرد کا پسندیدہ شغل بھی ہے اورعورت کے ساتھ منفی عمل وابستہ کرکے اس کے مردانہ احساس برتری کو تسکین بھی ملتی ہے کیوںکہ عورت کے بارے میں مرد کے خیالات ہمیشہ منفی رہتے ہیں۔

ایک طرف اگر اسے ’’ماں‘‘ کہنے پر مجبورہے تو دوسری طرف اسے شیطان کی آلہ کار ،مرد کو ورغلانے والی اور جنت سے نکلوانے والی بھی سمجھتاہے چنانچہ مردوں کی دنیا میں ہراس بات کو خوشی خوشی قبول کیا جاتا ہے جس میں عورت کی برائی کاکوئی پہلو شامل ہواور پھر ہندی نوشتوں میں تیاگ تپسیا کابنیادی تصورہی دنیا بیزاری اورعورت بیزاری ہے ۔

رشی منی اورجوگی، سادھو لوگ اس کے سائے سے بھی دوربھاگتے ہیں اورعورت کو گناہوں کی پوٹلی قراردیتے ہیں چنانچہ جس کسی نے بھی وش کنیا کایہ تصورپیش کیا ہوگا، اس کے ذہن میں عورت بیزاری کاعنصر زیادہ ہوگا ۔

ہمارے مسلمانوں میں بھی عورت کو بہت بڑا خطرہ ایمان سمجھا جاتاہے، اس کی تصویر،اس کے کپڑے جوتے یہاں تک کہ اس کی آواز بھی ’’ایمان‘‘ کے لیے خطرہ عظیم ہوتی ہے ۔کچھ عرصہ قبل جب صوبہ خیبر پختونخوا میں دینداروں کی حکومت آئی تھی تو عورت کو سب سے بڑا خطرہ ایمان سمجھ لیاگیا تھا۔

ہمارے ایک دوست کو ایک پیر صاحب سے بڑی عقیدت تھی اورہمارے درمیان اس موضوع پر اکثر بحث ہوتی رہتی تھی، ایک دن وہ ہمیں پیرصاحب کی کرامات دکھانے کے لیے زبردستی ہمراہ لے گیا، عصرکی نمازکاوقت تھا اورپیر صاحب کاانتظار ہورہا تھا جو امامت کرانے کے لیے گھر سے تشریف لانے والے تھے، ہم بھی ان کی آمد کا نظارہ دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔

آخر پیرصاحب گھر سے برآمد ہوئے، گھر اورمسجد کے درمیان ایک گلی سے گزرنا تھا،پیرصاحب ایک سفید کپڑے کی بکل مارے ہوئے تھے، چہرہ مبارک ٹھیک  اسی طرح ڈھکا ہوا تھا جس طرح افغانستان اورپاکستان کے قبائلی علاقے میں عورتیں گھرسے باہرکرتی ہیں ۔

ہم نے مرید خاص سے اس سخت ’’پردہ نشینی‘‘کے بارے میں پوچھا تو وہ بولاکہ یہ اس لیے کہ کہیں کسی عورت یا بچی پر نظر نہ پڑجائے۔

ہم نے کہا کہ عورتیں تو ان کے اپنے گھر میں بھی ہوں گی۔ اس پر مرید خاص بولا ، وہ تو محرم ہوتی ہیں ،حجاب نامحرم عورتوں سے کرتے ہیں۔ خیر مطلب کہنے کایہ ہے کہ عورت سے ہرطرح کا منفی تصورقائم کرنا مرد کا اختیار ہوتاہے ،اس لیے وش کنیا کو کہانیوں، ڈراموں اورتاریخوں میں بہت شہرت دی گئی ہے حالانکہ عملی طور پر ایسا کرنا یاہونا ممکن ہی نہیں ہے ، وش کنیا بنانا ممکن ہی نہیں ہے ۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے ’’زہر‘‘کے بارے میں جانناہوگا۔

زہرکی بہت ساری اقسام ہوتی ہیں۔ حیوانی زہر جیسے سانپ، بچھوؤں، بھڑوں، زنبوروں اور دیگر جانوروں کا ہوتا ہے۔ نباتاتی زہر جو کچھ پودوں میں ہوتاہے اورکیمیائی زہر جو بنائے جاتے ہیں۔ حیوانی زہر اصل میں ’’پروٹین‘‘ کی ایک پیچیدہ شکل ہوتی ہے اور یہ ان جانوروں کو قدرت نے دفاعی ہتھیارکے طورپر ودیعت کیاہے ،جب وہ خود کو انتہائی خطرے میں پاتے ہیں تو اپنا یہ ہتھیار انتہائی مجبوری کی حالت میں استعمال کرتے ہیں۔

اب ٹھنڈے خون والے جانوروں کا’’پروٹین‘‘ گرم خون والے جانداروں میں براہ راست انجکٹ ہوتاہے تو ان کے خون کو جما دیتا ہے، نتیجے میں دل رک جاتا ہے اور وہ مرجاتا ہے حالانکہ یہی حیوانی پروٹین یعنی حیوانی زہر اگر منہ کے ذریعے کھلایا جائے اور جسے کھلایا جائے، اس کے معدے یا انتڑیوں میں پہلے سے کوئی زخم نہ ہوتو زہرکچھ بھی نہیں کرتا بلکہ پروٹین ہونے کی وجہ سے فائدہ ہی دے گا۔ اس ضمن میںانتہائی اہم بات نظام ہضم کا تندرست ہونا ہے۔

اگر کوئی بھی زہرانسانی نظام ہضم سے گزرجائے تو وہ پھر ’’زہر‘‘ نہیں رہتا ، مطلب یہ کہ اس میں دو صورتیں ہوسکتی ہیں، پہلی یہ کہ زہر انسانی نظام ہضمکو شکست دے کر غالب آجائے گا یا پھر نظام ہضم زہر پر غالب آکر اسے کشتے میں تبدیل کر دے گا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔