دہشت گرد اور دینی جماعتیں

جمیل مرغز  اتوار 15 اکتوبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

محترم اشفاق اللہ ڈاگیوال ایک اچھے کالم نگار ہیں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور میرے پیر و مرشد حضرت مولانا حمداللہ جانؒ المعروف ڈاگئی بابا کے فرزند ہیں‘ ان کی علمی قابلیت روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے ان کے کالموں سے عیاں ہے‘ ان کا موضوع پاکستان کے اندر مذہبی سیاست کے خد وخال ہیں۔

انھوں نے اپنے کالم میں ایک بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی ہے ‘ان کے کالم کا عنوان ہے کہ’’آخر جے یو آئی دہشت گردی کا نشانہ کیوں؟‘‘ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ترین ملک‘واحد ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ ہے ‘ روئے زمین پر جہاںکہیںمسلمان کسی مصیبت میں ہو تو اس کی نگاہیں پاکستان‘ کی طرف اٹھتی ہیں‘ اس لیے دشمنان پاکستان ہر طریقے سے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں‘لمحہ موجود میں پاکستان کو جتنے بھی چیلنجز کاسامنا ہے‘ یہ سب ایک منظم بین الاقوامی سازش ہے‘ ان میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کی موجودہ لہر ہے۔

اس بدامنی سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں‘اب سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی والے اگر اسلامی نظام کے لیے جہاد کر رہے ہیں ‘تو ان کا ہدف تو جمہوری قوتیں‘ سیکولر اور ترقی پسند قوتیں ہونی چاہیے ‘یہ مذہبیی پارٹیوں کے خلاف کیوں حرکت کرتی ہیں؟وہ تو ان کی حلیف ہیں‘ضرور دال میں کچھ کالا ہے؟اس سلسلے میں دو تین جوابات ممکن ہیں۔ ایک کہانی میں جواب بھی ہے۔

گائوں کے داخلے کے راستے پر چار آدمی ایک چارپائی اٹھائے ہوئے آ رہے تھے ‘کسی غریب کا جنازہ سمجھ کر چند راہ گیر بھی ساتھ ہولیے ‘ آہستہ آہستہ مزید لوگ شامل ہوتے گئے ‘ چاروں مہمانوں سے جنازہ گاؤں کے لوگوں نے لے لیا‘جب جنازہ قبرستان کے قریب پہنچا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ قبر کدھر ہے؟اب ان افرادکی تلاش شروع ہوئی جو جنازہ لے کر گاؤں میں داخل ہوئے تھے، وہ چاروں غائب تھے اور لوگ حیران و پریشان کھڑے تھے ‘ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ جنازہ ہے ‘مریض ہے یا خالی چارپائی ہے۔

ایک دوست کا کہنا تھا کہ میں نے ایک طالبان رہنماء سے پوچھا کہ ان کی جدوجہد کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس رہنماء کا کہنا تھا کہ تاریخ کی یہ ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ روس جب افغانستان میں آیا تو ہماری مذہبی جماعتوں کی قیادت نے افغانستان کی مذہبی قیادت اور ان کے جنگجو گروپوں کی حمایت کی اور ان کی جدوجہد کو جہاد قرار دیا ‘ان علماء کا کہنا تھا کہ چونکہ ایک کافر ملک افغانستان پر قابض ہوگیا ہے‘ اس لیے اب دنیا کے تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ روس کے خلاف جہاد کریں۔

اس جہاد کے لیے مالی مدد اور اسلحہ وغیرہ امریکا سے آتا تھا ‘اگر کوئی پوچھتا کہ امریکا بھی تو کافر ہے؟ اس سے مدد اور احکامات لینا کیا غیر اسلامی فعل نہیں ہے تو جواب ملتا کہ چونکہ روسی کافر ہیں اور امریکی اہل کتاب ہیں، امریکی افغانستان پر قبضہ کرنے نہیں آئے بلکہ وہ تو افغانستان کے مسلمانوں کو کافر روسیوں سے نجات دلانے میں ہماری مدد کر رہے ہیں‘اس لیے کافر کے مقابلے میں اہل کتاب کا ساتھ دینا جائز ہے ‘چونکہ مقصد ایک ہے اس لیے ساتھ کام کرنے میں کوئی حرج نہیں‘جب روسی افغانستان سے چلے گئے تو وہ تمام مسلمان جو دنیا بھر سے جہاد کے لیے یہاںلائے گئے تھے یہاں رہ گئے۔

جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کا اگر کسی کو فائدہ ہوا تو وہ دائیں بازو کی حکمران اشرافیہ اور مذہبی سیاسی لیڈر شپ ہیں۔افغانستان میں روس کے جانے کے بعد مجاہدین اور پھر طالبان کی حکومت قائم ہوئی۔ امریکا نے 9/11کا انتقام لینے کے لیے افغانستان پر حملہ کردیا۔

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے حکومت بنا لی اور بلوچستان میں حکومت کے حصہ دار ہوگئے اور جنرل مشرف کے ساتھ مل کر حکومت کرنے لگیں۔ جنرل صاحب کو باوجود امریکا کا ساتھ دینے کے مضبوط بنانے کے لیے سترویں ترمیم کو پاس کیا۔ان کے افغان پالیسی کی عملی حمایت کی ۔ اسی دور میں القاعدہ اور طالبان کے مفروروں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا جاتا رہا۔

جب جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بات کی جائے تو نجی محفلوںمیں وہ طالبان کی مخالفت کرتے ہیں۔جمیعت العلماء اسلام کے رہنماء بھی نجی محفلوں میں طالبان کی مخالفت کرتے ہوئے سنے گئے ہیں۔

طالبان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ جہاد کی چارپائی ان کے حوالے کرکے اسے افغانستان کے اندر لانے والے خود کھسک گئے، اب چارپائی اٹھائے طالبان پریشان ہیں کہ کیا کیا جائے۔اس میں کوئی مریض ہے تو اس کو کس اسپتال میں داخل کیا جائے اور مرض کی نوعیت کیا ہے۔اگر کوئی مردہ ہے تو کس کا ہے ۔کہاں دفن کرنا ہے۔اس کی قبر کہاں ہے۔

اب پاکستان میں ہر طرف خون اور آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں‘خود کش حملوں کے ذریعے بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں‘پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جارہے ہیں،پورا ملک ایک بے یقینی اور افراتفری کا شکار ہے ‘اب مزید چپ رہنا وطن اور عوام دونوں سے غداری ہے۔اب دائیں بازو کی اشرافیہ اور مذہبی طبقے باہر نکل کر اس طوفان کا سامنا کرنا چاہیے۔

اگر یہ جہاد ہے تو کھل کر اس کی حمایت کرنی چاہیے اور عوام کو بھی اس میں شامل ہونے کی تلقین کرنی چاہیے اور اگر یہ جہاد نہیں ہے تو کھلے عام اس کی مذمت کرنی ہوگی اور طالبان اور ان کے اکابرین کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔تاریخ ان کے کردار کا جائزہ لے رہی ہے۔عوام بھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اپنی چارپائی چھوڑ کر بھاگ جانا کوئی مردانگی اور مسلمانی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔