لڑکی کا قتل ! پتھر کے زمانہ کی تاریخ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 2 دسمبر 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پتھر کے زمانہ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پختون خوا کے پسماندہ علاقے کوہستان میں جرگہ کے فیصلہ کے تحت ایک لڑکی کو محض اس بناء پر قتل کیا گیا کہ ایک وڈیو میں دو لڑکیوں کو مقامی لڑکوں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

پولیس نے دوسری لڑکی کی جان بچائی مگر سول جج نے لڑکی کو اس کے والدین کے ساتھ بھیج دیا۔ تھانہ کوہی پلاس کے ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ یہ وڈیو جعلی اور ایڈیٹ شدہ تھی۔ ڈی ایس پی نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کی میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے قریبی صحت کے مرکز میں منتقل کیا گیا۔

پولیس نے دوسری لڑکی کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور متعلقہ سول جج نے زندہ بچنے والے لڑکی کو اس کے والد کے ساتھ گھر بھیج دیا۔ وڈیو میں نظر آنے والا لڑکا جان بچانے کے لیے روپوش ہوگیا جس کو بعد میں پولیس نے حراست میں لے لیا۔

کوہستان تھانے کے ایس ایچ او نے صحافیوں کو بتایا کہ مقتولہ لڑکی کے والد نے پولیس سے رابطہ نہیں کیا مگر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 1091(جرم میں مدد کرنا) ، دفعہ 302 ( قتل کرنا) اور دفعہ 311 ( قتل قصاص کے اطلاق نہ ہونے پر سزا ) کے تحت مقدمات درج کیے۔

علاقہ کے ایک پولیس افسر نے اس واقعہ کے افشا ہونے کے بعد یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھی کہ لڑکی کو جرگے نے سزا نہیں دی تھی بلکہ لڑکی کے والد اور بھائی نے اسے قتل کیا تھا۔ پولیس نے لڑکی کے باپ اور بھائی کو گرفتار کر لیا۔

کوہستان کے اس واقعے کی تفصیلات دل ہلا دینے والی ہیں مگر 2011میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی گاؤں میں دو کم عمر لڑکیوں کو محض اس بناء پر قتل کیا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں وہ ایک نوجوان کے ساتھ شادی کی تقریب میں نظر آرہی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں۔ ان لڑکیوں کے قاتل ان کے والد اور بھائی ہیں۔

برطانوی خبررساں ادارہ بی بی سی کی اس وقت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان لڑکیوں کی عمریں 16 اور 18 سال کے قریب تھیں۔ اس وڈیو میں اس گاؤں کے مضافاتی علاقہ میں ایک نوجوان تین لڑکیوں کے ساتھ رقص کرتا نظر آرہا تھا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ وڈیو ایک سال بعد وائرل ہوئی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان لڑکیوں کی ہلاکت پر ازخود نوٹس لیا تھا ۔ ایک تحقیقاتی ٹیم نے اس دور دراز علاقے کا دورہ کیا تھا۔

نوجوان افضل کوہستانی نے 2012میں عزت کے نام پر لڑکیوں کے قتل کی اس واردات کو افشاکیا تھا البتہ افضل کوہستانی کو اس جرات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔ پہلے اس کے مکان کو تباہ کیا گیا پھر افضل کو بھی قتل کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2018 میںاس واقعے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا تھا مگر قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہ مل سکی۔

عزت کے نام پر قتل کا سلسلہ تو ہزاروں برس سے جاری ہے۔ ہر سال چاروں صوبوں میں سیکڑوں خواتین قتل کردی جاتی ہیں۔ عمومی طور پر مرد بھی قتل ہوتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے خاصی تحقیق ہوئی ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے دانشور صحافی ارشد یوسفزئی جرگہ کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک خاندانی جرگہ ہوتا ہے، دوسرا قبائلی جرگہ اور تیسرا برادری کا جرگہ ہوتا ہے۔

خاندانی جرگہ میں خاندان کے تنازعات اور شادی بیاہ وغیرہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ قبائلی جرگہ میں سیاسی نوعیت کے معاملات کے فیصلے ہوتے ہیں۔

اس جرگہ میں ملک، بڑے زمیندار اور مذہبی علماء شرکت کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں قبائل کے درمیان جھگڑوں کا بھی تصفیہ ہوتا ہے۔ برادری کے جرگہ میں برادری کا بڑا آدمی جرگہ کی صدارت کرتا ہے جس میں علاقہ کے مسائل پر تصفیہ ہوتا ہے۔

تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمومی طور پر خاندانی جرگہ کسی کو سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے، عمومی طور پر خاندانی جرگہ میں شادی بیاہ کے معاملات کے علاوہ کسی لڑکی یا لڑکے پر بے راہ روی کا معاملہ زیر غور آتا ہے اور عمومی طور پر باپ، بھائی، سسر، چچا یا ماموں وغیرہ اپنے قریبی عزیزوں کو قتل کر کے جرگہ کے سامنے پیش ہوجاتے ہیں جہاں انھیں معافی مل جاتی ہے یا جرمانہ ہوتا ہے۔ عدالتوں میں یہ مقدمات کم ہی جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم جرگوں کے فیصلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

جرگوں میں قبائلی سردار، جاگیردار اور عمائدین فیصلہ کرنے والی جیوری میں شامل ہوتے ہیں۔ ان جرگوں میں خواتین صرف ملزم کے طور پر پیش ہوتی ہیں۔ خواتین کا جرگہ کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ جرگہ کے نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اگر کسی لڑکی کے والد اور قریبی رشتے دار اپنی بچی کوبے گناہ سمجھتے ہیں مگر وہ جرگہ کے فیصلہ کے سامنے مجبور ہوتے ہیں۔

ملک بھر میں جرگوں کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں تو سرکاری سرپرستی میں جرگے منعقد ہوتے ہیں۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ جرگہ کو اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں انتظامی افسران حکومت مخالف عناصرکی سرکوبی کے لیے جرگہ کو استعمال کرتے ہیں۔

مذہبی انتہا پسندی کے اثرات پھیلنے کے بعد رجعت پسند مذہبی حضرات خواتین پر پابندی کے لیے جرگہ کے ذریعہ فیصلے نافذ کر رہے ہیں۔ عمومی طور پر یہ خبر بھی آئی ہیں کہ ان علاقوں میں جرگہ نے خواتین کے بغیر محرم گھر سے نکلنے اور تفریحی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ گزشتہ دنوں میں اس طرح کے ایک جرگہ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد کے سائنسی نظریات بیان کرنے پر زندگی اجیرن کردی تھی۔

یہ خبریں بھی آئیں کہ بنوں میں ایک جرگہ نے خواتین کے غیر سرکاری تنظیموں (N.G.O’s) میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ گزشتہ ہفتہ شمالی وزیرستان میں ایک جرگہ نے مطالبات منظور ہونے تک پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

اس جرگہ کے ترجمان مفتی ہیبت اﷲ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وزیرستان میں پولیو کی مہم پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے، جو شخص اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا، اسے پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ صحافی ارشد یوسفزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی ایک لڑکی کو پسند کی شادی پر ان کے چچا نے زہریلا انجیکشن لگا کر قتل کردیا تھا۔ لڑکی کے بھائی بہن اور ماں سب لڑکی کے حق میں تھے۔

صرف سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج رحمت اﷲ جعفری نے کئی سال قبل سندھ میں جرگوں کے انعقاد پر پابندی عائد کی تھی مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ پولیس نے کبھی بھی جرگوں کے انعقاد کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔

اخبارات میں مسلسل یہ خبریں شایع ہوتی ہیں کہ سابق وزرائ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین، اعلیٰ پولیس اور انتظامی افسران جرگوں کے انعقاد میں معاونت کرتے ہیں اور جرگوں کے فیصلوں پر عملدرآمد میں حصہ لیتے ہیں، اگرکبھی کسی اخبار میں خبر شایع ہوتی ہے یا ٹی وی چینل پر خبریں یا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے کوئی وڈیو وائرل ہوتی ہے تو محض تردید سے کام چلایا جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو 10 سال کے قریب عرصہ گزرا ہے مگر کبھی کسی شخص کو جرگہ کے انعقاد یا اس میں شرکت پر سزا نہیں ہوئی۔

خیبر پختون خوا تو مسلسل مذہبی دہشت گردی کی زد میں ہے۔ اس مذہبی دہشت گردی کا براہِ راست نشانہ خواتین اور اقلیتیں ہیں۔ طالبان نے ایک منظم منصوبے کے تحت لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کیا۔ خواتین اساتذہ پر حملے ہوئے اور کئی خواتین اساتذہ ان حملوں میں جاں بحق ہوئے مگر حسب معمول یہ جرم کرنے والے کسی فرد کا احتساب نہیں ہوا، جب بھی خواتین کو جرگوں کے ذریعے قتل کرنے کی خبریں آتی ہیں توگورنر اور وزیر اعلیٰ تحقیقات کا حکم دیتے ہیں، مگر ان تحقیقات کے نتائج کبھی ظاہر نہیں کیے جاتے اور خواتین کے خلاف جرائم کرنے والے سزا نہیں پاتے۔

اس دفعہ تو خیبر پختون خوا کے گورنر اور وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کی مذمت تک نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ نے محض چیف سیکریٹری کو تحقیقات کا حکم دیا۔ اس واقعے پر صرف وزیر اعظم اور صدر صاحب ہی مسلسل خاموشی اختیار نہیں کیے ہوئے ہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی خاموش ہیں جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست کی ترجیحات میں خواتین، بچے اور اقلیتیں شامل نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے بہت کم اقدامات ہوتے نظر آتے ہیں، یوں لڑکیوں کے قتل کے واقعات ہوتے رہیں گے اور کسی قاتل کو سزا نہیں ملے گی اور یہ ملک پسماندہ رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔