نشان

ایم جے گوہر  پير 11 دسمبر 2023
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کے کردار اور ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنما اپنے پارٹی منشور سے رائے دہندگان کو متاثر کرکے اپنے حمایتی بناتے ہیں اور ان کے ووٹوں سے انتخابات جیت کر ملک پر حکمرانی کرتے ہیں۔

ایک مہذب، باوقار اور سوجھ بوجھ رکھنے والے جمہوری معاشرے کے قیام میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے منشور اور پروگرام سے عوام میں دلچسپی اور من پسند پارٹی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور عام انتخابات کے دوران عام آدمی کو اپنی مرضی سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے مثبت اور تعمیری کردار سے نہ صرف معاشرے کو سیاسی و سماجی اور معاشی استحکام ملتا ہے بلکہ نظام حکومت مربوط جمہوری طریقے سے آگے بڑھا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں سیاسی جماعتیں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت اور اہمیت اس لیے بھی مزید بڑھ جاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی کا دار و مدار سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین کی مثبت سوچ، منصفانہ طرز عمل اور تعمیری کردار پر منحصر ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں ہی عوام میں سیاسی شعور، آگہی اور سیاسی و جمہوری بصیرت پیدا کرتی ہیں جن کے باعث سیاست میں گہما گہمی، نظم و ضبط اور سیاسی ترقی کے سب سے لازم جزو قیادت کا قیام عمل میں آتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مثبت سوچ، جمہوری اقدار کی پاسداری، آئین و قانون پر عمل درآمد کا عملی مظاہرہ اور ان کے سیاسی نظریات کا جامع تصور اور عوام سے ان کا گہرا تعلق ہی انھیں بام عروج تک لے جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں اگر تنظیمی و نظریاتی ڈھانچہ مربوط اور مضبوط ہو تو قیادت کی تبدیلی کے باوجود سیاسی جماعتوں کا وجود برقرار رہتا ہے، عوام سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے، قائد تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن جماعتیں قائم رہتی ہیں اور لوگوں میں ان کی مقبولیت برقرار رہتی ہے۔

آپ امریکا، برطانیہ، چین، جاپان اور دیگر ممالک کے جمہوری نظام کو دیکھ لیں، وہاں قدیم جماعتیں قیادت کی تبدیلی کے باوجود آج بھی اپنے نظریات کی بنیاد پر اپنا عوامی وجود نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں تک بھی ان کی رسائی کا عمل جاری رہتا ہے۔

وطن عزیز میں اس وقت سو کے لگ بھگ سیاسی جماعتیں ہیں، اگر ان سیاسی جماعتوں کے خد و خال کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت منظرعام پر آتی ہے کہ ملک کی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں میں نظریات کا گہرا فقدان پایا جاتا ہے۔ شخصیت پرستی کا غلبہ اور خاندانی قبضے کا عمل نمایاں نظر آتا ہے۔

پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ سے لے کر پی ٹی آئی تک ہر سیاسی جماعت کسی ایک رہنما کی شخصیت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

مسلم لیگ تو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ہوئی آج کل شریف خاندان کے قبضے میں ہے، نواز شریف کی شخصیت کا سحر مسلم لیگ پر طاری ہے، اگر چہ مسلم لیگ (ن) کے بطن سے ضیا لیگ و (ق) لیگ وغیرہ نے بھی جنم لیا تاہم آج بھی شریف خاندان کا کلہ مضبوط ہے اور نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے مضبوط امیدوار ہیں۔

اسی طرح ملک کی ایک اور اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور اب نواسے بلاول بھٹو اپنی خاندانی سیاسی وراثت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے 8 فروری 2024 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وزیر اعظم بننے کے لیے ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تیسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے طلسم کا شکار ہے۔ اپنی ابتدا سے آج تک پی ٹی آئی میں کوئی دوسرا لیڈر نہیں ابھرا ہے۔ آج کل وہ پابند سلاسل ہیں۔ اپنی سیاسی نااہلی اور لمبی سزاؤں کا خطرہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

ان کی عوام میں مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اسی بل بوتے پر وہ اپنی پارٹی کو 2024 کے انتخابات میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے کر بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی چیئرمین نامزد کیا۔ الیکشن کمیشن کے حکم پر ’’انٹرا پارٹی الیکشن‘‘ میں گوہر علی خان بلامقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور عمر ایوب جنرل سیکریٹری منتخب ہوگئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی کہہ رہے ہیں کہ سابق چیئرمین نے پارٹی الیکشن میں خاندانی اور موروثی سیاست کے بت کو توڑا۔ وہ چاہتے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرح پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی یا اپنی بہنوں کے حوالے کر سکتے تھے لیکن انھوں نے بیرسٹر گوہر علی خان کو چیئرمین منتخب کرا کے جمہوری روایت کو فروغ دیا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر پارٹی انتخابات ایک سے زائد مرتبہ ہو چکے ہیں، ہر مرتبہ نواز شریف ہی سربراہ منتخب ہوتے رہے ہیں۔ چار سال قبل اپنی نااہلی کے بعد انھوں نے پارٹی کی قیادت اپنے بھائی شہباز شریف کے حوالے کردی اور انٹرا پارٹی الیکشن میں شہباز شریف بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے اندر ہونے والے انتخابات میں قیادت بھٹو خاندان کے پاس ہی رہتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی اہلیہ نصرت بھٹو نے قیادت سنبھالی پھر بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس موروثیت کو ختم کرکے انٹراپارٹی الیکشن میں خاندان کے باہر کے آدمی کو چیئرمین منتخب کرایا۔

سیاسی پارٹیاں ملک میں جمہوریت جمہوریت کا راگ تو الاپتی ہیں لیکن ان پارٹیوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ جمہوری اقدار کو بری طرح پامال کرکے پارٹی پر خاندانوں کی گرفت کو مضبوط کیا جاتا ہے یا شخصیت پرستی کے بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان جب اپنی پارٹیوں کے اندر ہی جمہوریت قائم نہیں کر سکتے تو ملک کے اندر جمہوری اقدار کی پاس داری چہ معنی دارد؟ صرف دکھاوا اور عوام کو بے وقوف بنانا ہے۔

کیا ہمارا آئین انٹرا پارٹی الیکشن میں شخصی مطلق العنانیت، خاندانی و موروثی سیاست کی اجازت دیتا ہے؟ سیاستدانوں کے غیرجمہوری وغیرسنجیدہ رویوں کے باعث ملک میں جمہوریت کو استحکام نہ مل سکا جس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا اور ملک چار مرتبہ مارشل لائی آمریت جمہوریت کو ترستا رہا اور دولخت بھی ہو گیا۔ پی ٹی آئی الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بانی رکن اکبر ایس بابر اسے چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

پلڈاٹ کے مطابق انتخابات میں شفافیت نہیں تھی جب کہ پی پی پی اور (ن) لیگ نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنازعات سے قطع نظر الیکشن کمیشن کا فیصلہ اہم ہو گا۔ سب سے اہم بات پی ٹی آئی کے لیے بیلٹ پیپر پر اپنا معروف انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کا تحفظ کرنا ہے۔

مخالف قوتیں عمران خان کو عبرت کا نشان بنانا چاہتی ہیں جب کہ عمران اپنی جماعت اور بلے کا نشان بچانا چاہتے ہیں ۔ کون سا نشان بچے گا اور کون سا نشان مٹے گا اس کا فیصلہ آیندہ انتخابات میں ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔