بچوں کا ادب کیا اور کیسا ہونا چاہیے

بہت سے لوگ مخصوص نظریات کے پرچار کو کہانی سمجھنے لگے ہیں


کاوش صدیقی January 10, 2024
مغرب میں بچوں کا ادب تنوع سے بھرپور ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج کا جدید دور نت نئی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور ہر روز کوئی نئی اختراع سامنے آجاتی ہے۔ معلومات کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ بڑی سے بڑی اختراع منٹوں گھنٹوں میں منظر عام پر آجاتی ہے۔ اس لیے یہ تو مان لیجیے کہ آج کہانی میں تبدیلی آگئی ہے اور یہ تبدیلی کہانی کا حصہ بن رہی ہے۔


بچے کے اندر قدرت نے تجسس کا مادہ رکھا ہے، وہ ہر چیز جاننا، سمجھنا، سیکھنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے سیکھنے کی جبلت کا تقاضا ہے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ ہر بچے کی طبع مختلف ہے۔ اسی طرح بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ہم اپنے تہذیبی رویے بھی منتقل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں مغرب اور مشرق ہر دو یکساں ہیں۔


نرمی، شائستگی، تحمل، درگزر، معافی، برداشت، سماجی تعلقات میں رکھ رکھاؤ، آخر ہم یہ سب اپنے بچوں میں کیسے منتقل کریں گے؟


ہم اپنے ماحول، تعلیم اور اپنی تربیت کے مطابق طریقہ کار کو منتخب کریں گے۔ اب اس میں بنیادی چیز سماجی رویے آتے ہیں۔ اور یہ نانا نانی، دادا دادی، اماں، خالہ، پھپھو کی کہانیوں و گفتگو سے منتقل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تصورات کے مطابق بچوں کو آٹے کی طرح گوندھتے ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ وہ خستہ کرارے پراٹھے بنتے ہیں یا جلی روٹی۔ کیونکہ گوندھنے کے بعد کا اگلا مرحلہ بھی ہم ہی طے کرتے ہیں۔


بدقسمتی کہ ہم دور اندیشی سے کوسوں پرے ہیں، اس لیے ہم آج کی تربیت کے نتائج کا بیس برس کے بعد کا اندازہ ہی نہیں کرپاتے اور یوں ہم سب سے اہم چیز بچوں کی فکری تربیت کو باوجوہ سمجھ نہیں پاتے۔ یہاں یہ مت بھولیے کہ ہم ایک شدت پسند جذباتی قوم کے فرد ہیں جو نعروں سے چاند کو چھونا چاہتی ہے۔ چنانچہ جس طرز فکر کے ہاتھ میں باگ ڈور آگئی، اس نے اپنے نظریات سمجھائے۔ بلکہ ٹھونسائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ مخصوص نظریات کے پرچار کو کہانی سمجھنے لگے۔


یہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہانیاں جن پر مذہبی کہانیوں کا لیبل لگا ہے وہ بھی اپنے تناظر میں کہانیاں ہیں۔ مغرب کو دیکھ لیجیے وہ کس طرح بائبل کی تعلیمات کو بچوں کی کہانیوں، فلموں، کارٹونز میں پیش کرتے ہیں اور ایسا پوری دنیا کے ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ مذہبی حوالے سے دیکھ لیجیے کہ آپ میں جرأت ہے کہ آپ عمر سیریز بناسکیں، یوسف پیامبر بناسکیں؟ تو پہلے اپنی جڑوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔


جہاں تک مغرب کے ادب میں بچوں کے ادب کا تعلق ہے تو وہ تنوع سے بھرپور ہے۔ اس کی وجہ تعلیم کا شعور ہے۔ ضرورت کا احساس ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔ ذرا جاپان، چین، کوریا وغیرہ کا کلچر دیکھ لیجیے، ماں باپ، بڑوں استاد کا ادب دیکھ لیجیے۔ دور کیوں جائیں، ذرا عربوں کا والدین سے ادب کا معاملہ دیکھ لیجیے اور ہم ہیں کہ کاغذات پر انگوٹھے لگوانے کےلیے نہ مردہ باپ کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ زندہ ماں کی؟ سڑکوں پر اساتذہ کے احترام کے مناظر تو ہم ابھی تازہ تازہ دیکھ چکے ہیں۔


ہم بچوں کے ادب میں ہر دو سطح پر انتہاپسندی پر مائل ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی کہانیوں کے معیار میں مغرب سے مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ سعی لاحاصل کے سوا کچھ بھی نہیں۔


آپ اگر لکھنا بولنا چاہتے ہیں تو یہ دیکھ لیجیے کہ آپ کس کے خلاف نہیں بول سکتے، بس اس دائرے سے پرے پرے لکھیے۔ ہمارے سماج کی تہہ در تہہ پیچیدگی کے سبب ہم بچوں اور بڑوں دونوں ہی کے ادب کو بین الاقوامی سطح پر پیش نہیں کرسکے۔ فلم، ڈرامہ، رقص، موسیقی، ان کو ہم ان کی کیفیت کے تناظر میں نہیں بلکہ اپنی پسند کے ہالے میں مقید کرکے دیکھنے کے شوقین ہیں۔ ادیب تو ایک آلہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کا آئینہ صیقل ہوتا ہے اور آئینے میں وہی چیز دکھائی دیتی ہے جو اس کے سامنے ہو۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


مقبول خبریں