انٹر سال اول کے متنازعہ نتائج؛ ہزاروں طلبا یونورسٹی میں داخلوں سے محروم ہوگئے

صفدر رضوی  منگل 16 جنوری 2024
فوٹو: ایکسپریس

فوٹو: ایکسپریس

  کراچی: اعلی تعلیمی ثانوی بورڈ کراچی کی جانب سے انٹر سال اول 2023 کے متنازعہ رزلٹ کے اجرا کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں اور ان نتائج میں طلبا کی اکثریت کے فیل ہوجانے کے سبب کراچی کے طلبا پر پروفیشنل تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہوگئے ہیں۔

رواں سال کے آخر اور آئندہ برس میں ہزاروں طلبا انجینیئرنگ اور میڈیکل کے ضابطوں میں داخلے نہیں لے سکیں گے کیونکہ این ای ڈی یونیورسٹی پری انجینیئرنگ کے تمام شعبوں میں انٹر سال کے نتائج کی بنیاد پر داخلے دیتی ہے۔

ان داخلوں کے لیے رجحان ٹیسٹ میں شرکت کا اہل بھی وہی طالب علم ہوتا ہے جس نے کم از کم 60 فیصد مارکس کے ساتھ انٹر سال اول میں کامیابی حاصل کی ہو جبکہ پری میڈیکل کے رجحان ٹیسٹ کے لیے بھی ضروری ہے کہ طلبا کے انٹرمیڈیٹ میں حاصل کردہ مارکس 60 فیصد ہوں لہٰذا یہ سوال بازگشت کررہا ہے کہ اس بیچ کے کراچی کے طلبا ڈاکٹر اور انجینیئرز کیسے بنیں گے۔

حالیہ نتائج میں 60 فیصد اور اس سے زائد مارکس پر انٹر سال اول پاس کرنے والوں کی تعداد محدود ہے کیونکہ انٹر سال اول پڑی میڈیکل میں کامیابی کا تناسب تقریباً 36 فیصد جبکہ پری انجینیئرنگ میں 34 فیصد ہے اور بالترتیب دونوں فیکلٹیز میں 64 فیصد اور 66 فیصد طلبا پاس ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ اتنی بڑی تعداد میں طلبا کے فیل ہوجانے کے سبب یہ طلبا پری انجینیئرنگ میں داخلوں کے لیے درخواست دینے کے اہل ہی نہیں ہوں گے۔

“ایکسپریس” کے رابطہ کرنے پر این ای ڈی یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر ڈاکٹر طفیل احمد نے اس صورت حال کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ انھوں نے اس معاملے پر گہری تشویش کا بھی اظہار کیا،  پرووائس چانسلر کا کہنا تھا کہ این ای ڈی داخلے انٹر سال اول کے نتائج کی بنیاد پر دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ  پری میڈیکل اور پری انجینیئرنگ میں 60 فیصد اور اس سے زائد مارکس لینے والے طلبا کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں انتہائی محدود ہے اور  خدشہ ہے کہ یونیورسٹی کے پاس داخلوں کے لیے فارم  بہت محدود تعداد میں جمع ہوں اور طلبا کی تعداد کے ساتھ ساتھ نتائج کا تناسب کم ہونے سے داخلہ میرٹ بھی نیچے آجائے گا جبکہ بڑی تعداد میں طلبا داخلوں کے لیے اپلائی ہی نہیں کرسکیں گے۔

واضح رہے کہ “ایکسپریس” کو اس سلسلے میں انٹر سال اول کے حالیہ نتائج کے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پری انجینیئرنگ میں صرف 4567 طلبا 60 فیصد اور اس سے زائد مارکس لے کر پاس ہوئے ہیں جبکہ پری میڈیکل میں یہ تعداد 6863 ہے اور کمپیوٹر سائنس میں 3123 طلبا ہی 60 فیصد یا اس سے زائد مارکس لے سکے ہیں۔ان تینوں فیکلٹیز میں مجموعی طور پر 14553 طلبا ایسے ہیں جنھوں نے انٹر سال اول میں 60 فیصد سے زائد مارکس لیے ہیں۔

“ایکسپریس” نے اس سلسلے میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سراج میمن سے بھی رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ایم بی بی ایس میں داخلے کے لیے مطلوبہ اہلیت پری میڈیکل میں 60 فیصد مارکس ہیں،  اگر نتائج کا تناسب کم ہے تو اس کے اثرات آئندہ برس کے داخلوں پر آسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ امتحان میں کم مارکس کے ساتھ پاس ہونے والے اور فیل ہوجانے والے طلبا دونوں ہی کو اہم بی بی ایس اور انجینیئرنگ کی پروفیشنل ڈگری میں داخلہ لینے کے لیے شدید چیلنجز درپیش ہیں۔

ایک سرکاری کالج کے پرنسپل نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ عام خیال یہ ہے کہ جو طالب علم سائنسی کے بنیادی مضامین میں انتہائی کم مارکس لے کر پاس ہوئے ہیں وہ اپنی passing percentage سال دوم کے نتائج میں اس حد تک نہیں لاپائیں گے کہ وہ ایم بی بی ایس کے داخلوں کے لیے اپلائی کرسکیں۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  ان طلبا کو اپنی percentage بہتر کرنے کے لیے صرف انٹر سال دوم کے پرچے ہی دینے ہیں جبکہ انٹر سال اول کی انتہائی کم passing percentage بھی ان کے انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں ظاہر  ہوگی جبکہ وہ طلبا جو انٹر سال اول میں فیل ہوگئے ہیں ان کے لیے مزید مشکلات ہیں کیونکہ انھیں دونوں سال یعنی سال اول اور سال دوم کے سائنس کے تمام مضامین کے پرچے دینے ہوں گے جو ایک عام طالب علم کے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔

واضح رہے کہ کراچی کے معروف پی ای سی ایچ ایس کالج، سر سید کالج، گورنمنٹ کالج ایس آر ای مجید، سینٹ لارنس کالج، ڈی جے سائنس کالج ، آدم جی سائنس کالج، اسلامیہ سائنس کالج ، گورنمنٹ سائنس کالج میں کینٹ اور پی ای سی ایچ ایس فاونڈیشن سمیت کئی ایسے کالج ہیں جہاں کے طلبا سائنس کے بیشتر مضامین میں فیل ہیں۔

یاد رہے کہ اس وقت انٹر بورڈ کراچی میں چیئرمین ، سیکریٹری اور ناظم امتحانات تینوں یی عہدے خالی ہیں،  نگراں وزیر اعلی سندھ نے کمشنر کراچی کو چیئرمین بورڈ کا چارج دے رکھا ہے جبکہ کمشنر کراچی دو دو ہفتے کے لیے متعلقہ افسران کو سیکریٹری اور ناظم امتحانات کا چارج دیتے ہیں اور ہر دو ہفتے بعد ایک نیا آفس آرڈر جاری کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ انٹر سال اول کے متاثرہ طلبا کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور منگل کو بھی سیکڑوں طلبا نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا ہے۔  ان طلبا نے کمشنر آفس جانے کی بھی کوشش کہ تاہم پولیس کی جانب سے انھیں روک دیا گیا تھا۔

ادھر بدھ 17 جنوری سے کمشنر کراچی کی ہدایت پر انٹر بورڈ میں اسکروٹنی کے لیے درخواستیں جمع ہونی ہیں لیکن کسی اعلی سطح کی کمیٹی کے بغیر اس اسکروٹنی سے نتائج ملنا بعید از  قیاس تصور کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔