ذرا سی زندگی

وجاہت علی عباسی  پير 9 جون 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

جب 13 کے عدد کو الٹا کیا جائے تو یہ بنتا ہے 31، گوکہ یہ صرف دو نمبر ہیں اس کے باوجود ان کی میرے لیے، میرے خاندان اور اردو زبان کے لیے بہت اہمیت ہے۔

13 جون جس تاریخ کو قمر علی عباسی اس دنیا میں آئے اور 31 مئی جب وہ اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر چلے گئے۔

قمر علی عباسی کی پیدائش ہندوستان کے شہر امروہہ میں ہوئی۔ وہ شہر جس کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا بچہ ضرور پیدا ہوتا ہے جو ادب کی دنیا میں بڑا نام پیدا کرتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں تو سید محمد تقی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، نذر امروہوی، سب ہی کا تعلق امروہہ سے تھا، اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے قمر علی عباسی نے تیرہ برس کی عمر سے ایک اردو اخبار کے بچوں کے صفحے اور مختلف رسائل میں لکھنا شروع کیا، وہ حیدر آباد میں رہتے تھے لیکن ڈاک کے ذریعے اپنی کہانیاں کراچی چھپنے بھیجتے۔

قمر علی عباسی کی پیدائش سے پہلے ان کے تین بھائی اﷲ کو پیارے ہوچکے تھے، قمر علی عباسی کے والدین نے ان کے لیے بے شمار منتیں مانگیں اور ایک منت پوری کرنے کے لیے انھوں نے اٹھارہ سال کی عمر تک ایک کان میں بالی بھی پہنی، ان کے والدین نے منت ان کی زندگی اور کامیابی کے لیے مانگی تھی۔ وہ کامیابی کی راہ جو انھیں بچپن میں ہی مل گئی تھی، انھیں عشق تھا اردو زبان سے اور اس کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کا فیصلہ انھوں نے لڑکپن سے ہی کرلیا تھا۔

نوجوانی کے زمانے میں ہی قمر علی عباسی ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو وہ جگہ جہاں پاکستان کی ثقافت اور اردو زبان کی نوک پلک سنوارنے کا بہت کام کیا گیا، سید سلیم گیلانی، سلیم احمد، عزیز حامد مدنی، حمید نسیم، عمر مہاجر جیسے نام ریڈیو کی شان تھے جہاں طلعت حسین، قربان جیلانی، جمشید انصاری جیسے فنکار قمر علی عباسی کے ریڈیو ڈرامے کے سفر کے ساتھی تھے وہیں امیر خان، رفعت قدیر ندوی، محمود علی اور محمد یوسف جیسے فنکاروں سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔

زندگی میں سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے شادی، اگر آپ کی شادی کسی ایسے شخص سے ہوجاتی ہے جس سے آپ کی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے اور آپ کی شادی کامیاب نہیں ہے تو چاہے آپ میں کتنا ہی ٹیلنٹ کیوں نہ ہو زندگی صرف روزمرہ کے جھگڑوں کے چھوٹے سے دائروں میں گھر کر رہ جاتی ہے لیکن اگر آپ کی شادی کامیاب ہے آپ کا شریک حیات آپ کو سمجھتا ہے اور آپ کے کام کو آپ کے مقصد کو عزت دیتا ہے تو پھر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے اور یہی کامیابی قمر علی عباسی کو حاصل ہوئی۔

نیلوفر علیم میڈیا کا ایک بہت بڑا نام تھیں، لیکن شادی کے بعد انھوں نے اپنی تمام تر ترجیحات اپنے شوہر قمر علی عباسی اور بچوں کے لیے وقف کردیں، نہ صرف ایک بہت اچھی بیوی بلکہ بہت ہی اچھی دوست ثابت ہوئیں۔

میں نے اکثر لوگوں کو خصوصاً خواتین کو یہ کہتے سنا ہے کہ مرد شادی کے ایک دو سال بعد بدل جاتے ہیں لیکن قمر علی عباسی کی شادی شدہ زندگی کا میں چشم دید گواہ ہوں کہ انھوں نے نیلوفر عباسی کو ہمیشہ وہی درجہ دیا جس کی وہ مستحق تھیں۔

ہر انسان کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آتا ہے جس کے بعد اس کی زندگی بدل جاتی ہے، قمر علی عباسی کی زندگی میں یہ موڑ ’’لندن لندن‘‘ تھا، بچوں کی کئی کتابیں لکھنے اور ایوارڈز حاصل کرنے کے بعد ان کا یہ پہلا سفر نامہ شایع ہوا جس کے بعد سفرناموں کا یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں، ان کے تیس سے زیادہ سفرنامے شایع ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔

میں بہت چھوٹا تھا کہ جب اپنے والد کی کتابوں کی رونمائی کی تقریبات میں جانا شروع کیا اور صحیح طرح پڑھ پانے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ قمر علی عباسی باکمال لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، حکیم محمد سعید، سحر انصاری، ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور ڈاکٹر قاسم پیرزادہ جیسی شخصیات ان کی تحریر کی تعریف کرتے تو مجھے ان کا بیٹا ہونے پر فخر ہوتا۔

ریڈیو کا جب بھی نام لیا جائے گا قمر علی عباسی کو لوگ ضرور یاد کریں گے، انھوں نے صرف نوکری نہیں کی ریڈیو پاکستان کی بہتری کو اپنی ذمے داری سمجھا۔ بڑا انسان وہ نہیں ہوتا جو اپنے افسر کو دیکھ کر کھڑا ہوجائے، بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو ایک ریٹائرڈ افسر جس سے اب کسی کو کوئی کام نہیں اسے اپنے آفس میں آتا دیکھ کر اپنی کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’سر! یہ آپ کی کرسی ہے، آپ اس پر ہی بیٹھیں گے۔‘‘ یہ تھے قمر علی عباسی۔

اسپانسر کروا کر ریڈیو کے ایسے اہل کاروں کو عمرہ اور حج کروانا جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور میڈیکل بلز، لوگوں کا وقت پر دفتر آنا اور پورے وقت دیانت داری سے کام کرنے کی پابندی، یہاں تک کہ ریڈیو کی بلڈنگ کے باہر فٹ پاتھ پر سیکڑوں بسیرا کرنے والے ہیروئنچیوں کو ہٹانا اور ریڈیو کی عمارت کو چاروں طرف سے پھول اور سبزے سے ڈھک دینے کا سہرا قمر علی عباسی کے سر جاتا ہے۔

زندگی جب آپ پر مہربان ہوتی ہے تو آپ دنیا میں جہاں جاتے ہیں پاسپورٹ کے ساتھ اپنی قسمت بھی لے جاتے ہیں، قمر علی عباسی ریڈیو سے ریٹائر ہونے کے بعد امریکا آگئے، وہ جگہ جہاں زندگی شروع کرنا انتہائی مشکل کام ہے اور اکثر لوگ عمر کے دوسرے حصے میں امریکا آکر بڑی مشکل زندگی گزارتے ہیں لیکن منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والے قمر علی عباسی کو اﷲ تعالیٰ نے یہاں بھی وہی رتبہ دیا جو پاکستان میں تھا اور ان کی اردو کی خدمت اسی طرح جاری رہی۔

میں خوش نصیب ہوں کہ اﷲ نے اتنے بڑے آدمی کا رشتہ مجھ سے جوڑ دیا اور مجھے زندگی میں کتنی ہی اچھی باتیں ان سے سیکھنے کا موقع دیا، سب سے اہم بات جو میں نے ان سے سیکھی وہ یہ کہ خوش رہو، میں نے انھیں کبھی رنجیدہ نہیں دیکھا، وہ کہتے تھے کہ یہ ذرا سی زندگی ہے جس کا ہر دن ایک نعمت ہے جب تم کسی بھی دن رنجیدہ ہوتے ہو تو اﷲ کی دی نعمت کو ٹھکراتے ہو۔

31 مئی کو قمر علی عباسی کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا، لیکن کچھ لوگ اپنی ذرا سی زندگی میں اتنے بڑے کام کر جاتے ہیں کہ انھیں ایک زمانہ یاد رکھتا ہے۔ قمر علی عباسی آج بھی اپنی کتابوں میں سانس لے رہے ہیں، وہ کہیں گئے نہیں ہیں آج بھی میرے ساتھ موجود ہیں، جب ان سے بات کرنی ہوتی ہے تو ان کی کوئی بھی سامنے رکھی کتاب کھول کر ان سے بات کرلیتا ہوں۔ اور وہ مجھے پھر ایک بار ’’زندگی کتنی اچھی ہے‘‘ کسی نہ کسی طرح سمجھا جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔