عید کا سیاسی منظر نامہ

خبریں دینے والے اپنی خبر غلط ہونے کی توجیحات تلا ش کرتے رہے کہ رہائی کیوں نہیں ہوئی


مزمل سہروردی June 10, 2025

عید الاضحی گزر گئی۔ ہم سب کہہ سکتے ہیں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی عید الاضحیٰ نہایت مذہبی جوش و خروش سے منائی گئی۔ لوگوں نے قربانی کی سعادت حاصل کی۔ لیکن ہر سال کی طرح اس عید کا بھی ایک سیاسی منظر نامہ رہا ہے۔ عیدوں کا سیاسی منظر نامہ بھی ہوتا ہے۔ یہ سیاسی منظر نامہ پاکستان کی سیاسی صورتحال اور مستقبل کے منظر نامہ کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ عید کا سیاسی منظر نامہ کافی کہانیاں بیان کرتا ہے اور کافی کہانیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

اس عید سے ایک ماہ پہلے ملک میں یہ ماحول بنایا گیا تھا کہ کپتان عید سے پہلے رہا ہو جائیں گے۔ ملک کے جید اور سینئر صحافیوں نے یہ خبر دی تھیں کہ سب معاملا ت طے ہو گئے ہیں ۔ کپتان کی رہائی ہو رہی ہے۔ گو کہ میں ہر موقع پر ان سب سے اختلاف کرتا رہا۔ لیکن میرے سینئرز بضد رہے اور انھوں نے مجھے یہ کہا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ۔ میرا ابھی تجربہ کم ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا ۔ مجھے تو صرف اتنا علم ہے جو سامنے نظر آرہا ہے۔

میں، پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے اس کو پڑھنے اور جاننے کے علم سے ابھی بھی محروم ہوں۔ میں عرض کرتا رہا کہ سیاسی ماحول ایسا ایک بھی اشارہ نہیں دے رہا کہ عید سے پہلے رہائی ہو جائے گی۔ لیکن عید سے پہلے پانچ جون کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی پر بہت انحصار کیا جا رہا تھا ۔ پانچ جون کی رہائی کی شرطیں لگائی جا رہی تھیں۔ ماحول بنایا جا رہا تھا کہ پانچ جون کو رہائی ہو جائے گی۔ عقل مان نہیں رہی تھی۔ لیکن سب بضد تھے۔ ایک گونج تھی کہ کپتان عید سے پہلے باہر آرہا ہے۔

ایک بہت سینئر صحافی تو پہلے یہ خبر بھی دے چکے تھے پاک بھارت جنگ کے دوران بھی کپتان کو جیل میں جا کر عسکری قیادت نے بریفنگ دی اور جنگ کے حوالے سے رہنمائی حاصل کی۔ میں نے تب بھی عرض کیا تھا کہ ایسا کچھ ممکن ہی نہیں۔ لیکن ملک میں عید سے پہلے رہائی کا ماحول بن رہا تھا۔ لیکن حقیقت یہی رہی کہ عید سے پہلے کپتان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی۔ سب امیدیں ٹوٹ گئیں۔

خبریں دینے والے اپنی خبر غلط ہونے کی توجیحات تلا ش کرتے رہے کہ رہائی کیوں نہیں ہوئی۔ ایک دوست جس نے سب سے پہلے خبر دی تھی اس نے سب سے پہلے توجیح دی کہ کپتان نے آخری موقع پر مقتدر حلقوںکی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس لیے رہائی رک گئی۔ میں ہنس دیا کہ یہ کیا مذاق ہے۔ جب کچھ ہی نہیں تھا تو رہائی کی تاریخیں کیوں دی جا رہی تھیں۔ بہرحال عید کا ایک منظر نامہ رہائی کا تھا دوسرا منظر نامہ توجیحات کا بھی رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی خبر غلط ہونے کے بعد اپنی طرف سے ایک توجیح پیش کر رہا تھا۔

عید کا دوسرا منظر نامہ عید سے پہلے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور فیلڈ مارشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ سعودی عرب بھی تھا۔ اس بار وزیر اعظم اور آ رمی چیف کے اکٹھے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی تصاویر اور وڈیو بھی سامنے آئی ہیں۔ ورنہ بیرونی دوروں پر تو اب وہ اکٹھے جاتے ہیں۔ لیکن عمرہ کی سعادت کی اکٹھی تصاویر نے بھی سیاسی منظر نامہ کو کافی واضح کیا۔ عید کی سیاسی محفلوں میں ان تصاویر اور وڈیوز پر بہت بات ہوئی۔

ان تصاویر میں وہ اکٹھے طواف کرتے نظر آئے ہیں۔ حجر اسود کو بوسہ دیتے نظر آئے ہیں، سعی کرتے نظر آئے ہیں، نوافل ادا کرتے نظر آئے ہیں، خانہ کعبہ کا دروازہ کھلتے اوردونوں اکٹھے اندر جاتے نظر آئے ہیں۔ دونوں کے اکٹھے عمرہ ادا کرنے کی تصاویر پر بہت بات ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تصاویر بولتی ہیں۔ ان کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ کچھ تصاویر کو تو کسی عنوان کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح ان تصاویر کو بھی کسی عنوان کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ خود ہی چیخ چیخ کر بول رہی تھیں، ان کی اپنی ہی زبان تھی۔

لوگ ایک دوسرے کو عید پر یہ تصاویر بھیجتے رہے۔ خاص کر وہ تصویر بھی جہاں دونوں احرام میں ہیں اور جنرل عاصم منیر نہایت محبت اور ہنستے مسکراتے ہوئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دوستوں کی رائے میں یہ تصویر دونوں کے درمیان محبت اور اعتمادکے رشتے کی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کسی وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ایسے عمرہ اداکرنے اور اس طرح کی تصاویر کبھی منظر پر نہیں آئی ہیں۔ اس لیے ان تصاویر پر عید کے دوران بہت بات ہوئی ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ جب کپتان وزیر اعظم تھے تو وہ عسکری قیادت کے ساتھ اپنی تصاویر جان بوجھ کر جاری کیا کرتے تھے تا کہ اپوزیشن کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ سب ایک پیج پر ہیں۔ اور پھران تصاویر کے سامنے آنے کے بعد سب وزیر اکٹھے ایک پیج کا کورس گانا بھی شروع کر دیتے تھے۔ جب عدم اعتماد آرہی تھی سب کو معلوم تھا کہ اب سب ٹھیک نہیں ہے۔ تب بھی ایسی تصاویر سے منظر نامہ کو دھندلا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس لیے آرمی چیف اور وزیر اعظم کی تصاویر ہمیشہ ہی سیاسی منظر نامہ پر بہت اہم رہی ہیں۔ اس لیے ان تصاویر کی اہمیت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن یہ ایک مضبوط تصاویر تھیں جو ایک مضبوط منظر نامہ پیش کر رہی تھیں۔

دونوں میں اعتماد کا لازوال رشتہ کی کہانی پیش کر رہی تھیں۔ یہ تصاویر کوئی ایک پیج کی بات نہیں کر رہی تھیں بلکہ دوستوں کی رائے میں بات ایک پیج سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ ایک پیج کوئی عارضی چیز ہوتی ہے جو ختم بھی ہوجاتا ہے۔ ہم نے ختم ہوتا دیکھا بھی ہے۔ لیکن یہ ایک لازوال اور نہ ختم ہونے والے رشتے کی کہانی بیان کر رہی ہیں۔ میں نے کچھ دوستوں سے ان تصاویر کی سیاسی کہانی پوچھنے کی کوشش کی ہے۔

ان کے مطابق ان تصاویر سے ایک نئے منظر نامہ کی بنیاد نظر آرہی ہے۔ دونوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اب یہ دونوں اکٹھے ہیں۔ انھیں الگ کرنا، ان کے درمیان اختلاف کی بات کرنا ممکن نہیں۔ تعلق نے ایک نئی بلندی کو چھو لیا ہے۔ اس لیے اب ملک کا منظر نامہ ان تصاویر کی روشنی میں دیکھا جائے۔

لوگوں نے ان تصاویر کے ساتھ کپتان کے دور وزارت عظمیٰ اور اس وقت کے آرمی چیف کی بھی بہت سی تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔ اور پھر تقابلی جائزہ بھی کیاہے۔ دیکھیں تب آرمی چیف ساتھ تو بیٹھا ہوتا تھا لیکن تصاویر میں وہ محبت اور اعتما د نظر نہیں آتا تھا جو اب ان تصاویر میں نظر آتا تھا۔ حالانکہ تب وہ تصاویر بھی ایک پیج کی کہانی بیان کرتی تھیں۔ لیکن ان تصاویر اور آج والی تصاویر کو جب اکٹھا دیکھا جا رہا ہے تو فرق صاف نظرآرہا ہے۔ اس فرق کو لوگ بیان کر رہے ہیں۔

مقبول خبریں