پاکستان اْن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہو سکتا ہے اگر اس کو درست سمت دی جائے، لیکن بدقسمتی سے موجودہ حالات نوجوانوں کے لیے پریشان کن ہیں۔ ہر سال صرف 20 لاکھ نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں، جو کہ موجودہ آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ اس کے برعکس، نوجوانوں میں بے روزگاری، ذہنی دباؤ، اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، جو ایک خطرناک سماجی رجحان بن چکا ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق صرف 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے، اور 2025 کی پہلی ششماہی میں ہی مزید 3 لاکھ 36 ہزار افراد ہجرت کر چکے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو تعلیم کے بجائے کمائی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 2024-25 کے مطابق، 2022–23 کے دوران اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی، اور کل طلبہ کی تعداد 2.24 ملین سے کم ہو کر 1.94 ملین رہ گئی، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
تعلیم سے دوری کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے بڑی وجہ معاشی بحران ہے، جس نے عام گھرانے کی آمدن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مہنگائی کے باعث نوجوان تعلیم کو چھوڑ کر کم ہنر والی ملازمتوں کی طرف جا رہے ہیں تاکہ گھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اخراجات بھی دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ سرکاری جامعات کو فنڈنگ کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ نجی ادارے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ہاسٹل، ٹرانسپورٹ، اور امتحانی فیسیں بھی نوجوانوں کے لیے رکاوٹ بن چکی ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ ملازمت کا غیر یقینی مستقبل ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نوجوانوں کو مناسب روزگار میسر نہیں آتا، جس کی وجہ سے ’’ڈگری کا مطلب نوکری نہیں‘‘ کا تصور پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات، انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ان مسائل کے اثرات قومی سطح پر بہت گہرے ہیں۔ جب نوجوان تعلیم یا ہنر کے بغیر رہ جاتے ہیں، تو وہ عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تعلیم یافتہ نوجوان جب بیرون ملک چلے جاتے ہیں، تو ملک برین ڈرین کا شکار ہوتا ہے۔ نتیجتاً معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور معاشرتی بے چینی جنم لیتی ہے، جو جرائم، انتہا پسندی اور مایوسی کو فروغ دیتی ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے چند فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے تاکہ جامعات اور ووکیشنل ادارے مستحکم ہوں۔ ضرورت مند طلبہ کو وظائف دیے جائیں اور فیس میں نرمی کی جائے۔ نصاب کو مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ملے۔ آن لائن اور ہائبرڈ تعلیم کو فروغ دیا جائے تاکہ دور دراز علاقوں کے طلبہ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے محفوظ ماحول، ٹرانسپورٹ اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ تعلیم کو سستا، معیاری اور سب کے لیے قابلِ رسائی بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کی خوشحالی کی کئی وجوہات ہیں۔ وہاں تعلیم سستی، معیاری اور عملی ہوتی ہے۔ تعلیمی ادارے صنعتوں سے منسلک ہوتے ہیں، جس سے نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ معیشت مضبوط ہوتی ہے اور مختلف شعبوں میں روزگار، انٹرن شپ، اور فری لانسنگ کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آسان دستیابی سے نوجوان آن لائن کاروبار، ریموٹ ورک اور ڈیجیٹل مارکیٹ میں متحرک ہوتے ہیں۔ حکومت نوجوانوں کو سٹوڈنٹ لون، رہائش، ہیلتھ کیئر، اور بے روزگاری الاؤنس کی سہولتیں دیتی ہے۔ سیاسی استحکام، مساوات اور آزادی اظہار کے ماحول میں نوجوانوں کو ترقی کے مساوی مواقع ملتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم، ڈیجیٹل مہارت، اور روزگار کے مواقع میں سرمایہ کاری کی جائے۔ نوجوان صرف مستقبل نہیں، حال بھی ہیں، اور اگر اْنہیں درست پلیٹ فارم مل جائے تو وہ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لاکھوں بچے اور نوجوان آج بھی اسکول سے باہر ہیں، اور جو اداروں میں ہیں وہ ناقص نصاب، غیر تربیت یافتہ اساتذہ، اور کمزور انفراسٹرکچر کا شکار ہیں۔ ووکیشنل اور ٹیکنیکل تربیت بھی انتہائی محدود ہے۔ تعلیم کے نظام کو ڈیجیٹل اور مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نوجوانوں کو روزگار میں شامل کرنے کے لیے صنعتکاری کو فروغ دیا جانا چاہیے، جس میں ووکیشنل تعلیم، مضبوط پالیسی سازی، انفراسٹرکچر کی بہتری، اور ماحول دوست منصوبے شامل ہوں۔ حکومت نے کچھ قابلِ قدر اقدامات کیے ہیں جن میں ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘، ’’احساس اسکالرشپ‘‘، ’’ڈیجی اسکلز‘‘، ’’ای روزگار‘‘، اور ’’قومی انٹرن شپ پروگرامز‘‘ شامل ہیں۔ ان پروگرامز سے ہزاروں نوجوان فائدہ اٹھا چکے ہیں، مگر اب بھی کئی مسائل موجود ہیں جیسے بینکنگ نظام میں رکاوٹیں، فالو اپ کی کمی، اور شفافیت کا فقدان۔
مستقبل میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جدید، عملی، اور شمولیتی نظامِ تعلیم کو فروغ دیں۔ تعلیمی اداروں کو صنعت سے جوڑ کر طلبہ کو روزگار کے قریب لایا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم تنخواہ، تنخواہ دار انٹرن شپ، جز وقتی ملازمتوں، آن لائن کاروبار، طلبہ قرضوں، رہائشی سبسڈی، اور صحت کی سہولتوں کو یقینی بنائے۔ نوجوانوں کو آزادی، مساوی مواقع، اور بین الاقوامی ایکسپوزر فراہم کر کے ہی ایک مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر درست اقدامات کیے جائیں تو پاکستان کے نوجوان نہ صرف خود کامیاب ہوں گے بلکہ ملک کو بھی ترقی کی نئی راہوں پر لے جائیں گے۔
پاکستان میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ تعلیمی نظام اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی وجہ سے نوجوان اپنی تعلیم کے باوجود روزگار حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نجی شعبے، اسٹارٹ اپس اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سبسڈی اور دیگر مراعات دے کر اس شعبے کو مضبوط بنائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
نوجوان آج کل ذہنی دباؤ، تعلیمی پریشانیوں، روزگار کی غیر یقینی صورتحال اور سماجی ناانصافیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل دنیا کے دباؤ نے ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس لیے ذہنی صحت کو اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹیز کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے۔ لائف اسکلز، کھیل اور مشاورت جیسی سرگرمیاں نوجوانوں کی ذاتی ترقی اور ذہنی تندرستی کے لیے بہت اہم ہیں، جنہیں عام کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے کھولنے کے لیے صنعت کاری کو بڑھاوا دینا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ووکیشنل تعلیم کو مضبوط کرنا، حکومتی پالیسیوں کو فعال بنانا، انفراسٹرکچر کی ترقی کرنا اور ماحول دوست منصوبے شروع کرنا بہت اہم ہیں۔ یہ اقدامات نوجوانوں کو ہنر مندی سکھانے اور انہیں معاشی سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
حکومت پاکستان نے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے کئی پروگرامز شروع کیے ہیں جن میں ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ نمایاں ہے۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو ایک لاکھ سے 50 لاکھ روپے کے نرم قرضے دیے جاتے ہیں، جب کہ ’’سکلز فار آل‘‘ کے تحت ایک لاکھ 70 ہزار نوجوانوں کو مفت تربیت فراہم کی گئی ہے۔ ’’اسٹارٹ اپ پاکستان‘‘ کے ذریعے نوجوانوں کو انکیوبیشن اور تربیتی سہولیات دی جاتی ہیں۔ اگرچہ 60 ہزار سے زائد نوجوان اس سے مستفید ہو چکے ہیں، مگر فالو اپ اور بینکنگ مسائل اب بھی رکاوٹ ہیں۔
حکومت کی جانب سے ’’احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ‘‘ کے تحت ہر سال 50 ہزار وظائف دیے جاتے ہیں جن میں نصف کوٹہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ اس اسکالرشپ میں مکمل ٹیوشن فیس اور ماہانہ وظیفہ شامل ہے تاکہ تعلیم کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں ’’ڈیجی اسکلز‘‘ اور ’’ای روزگار‘‘ پروگرامز کے ذریعے 2.5 ملین سے زائد نوجوانوں کو آن لائن تربیت دی جا چکی ہے، جس میں فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کوڈنگ اور گرافک ڈیزائن جیسی مہارتیں شامل ہیں۔ پاکستان اب دنیا کے ٹاپ فری لانسنگ ممالک میں شامل ہے اور نوجوان ملکی معیشت کو ڈالرز کی شکل میں مضبوط کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کو عملی تجربہ فراہم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف انٹرن شپ اور اپرنٹس شپ پروگرامز بھی متعارف کروائے ہیں۔ نیشنل انٹرن شپ پروگرام (NIP) کے تحت فارغ التحصیل طلبہ کو سرکاری اداروں میں تربیت دی جاتی ہے جبکہ NAVTTC کے تحت صنعتی اداروں میں نوجوانوں کو تکنیکی اور عملی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات قابلِ تعریف ہیں، مگر ان میں بہتری کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اکثر اوقات سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے تقرریوں اور مواقع میں رکاوٹیں آتی ہیں۔
پاکستان کے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور پالیسی ساز ایک جدید، عملی اور شمولیتی نظام تعلیم تشکیل دیں۔ یونیورسٹیز اور ووکیشنل اداروں کو صنعت کے ساتھ مربوط کیا جائے تاکہ طلبہ کو روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔ صنعت کاری کو فروغ دے کر روزگار پیدا کرنے کے ساتھ کم از کم تنخواہ کے قوانین، کارکنان کے حقوق اور تنخواہ دار انٹرن شپس کا نفاذ کیا جائے۔ نوجوانوں کو جز وقتی ملازمتوں، آن لائن کاروبار اور ریموٹ ورک کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خود مختار بن سکیں۔
مزید برآں، طلبہ کو قرضے، رہائشی سبسڈی، بے روزگاری الاؤنس اور صحت کی سہولیات جیسی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ نوجوانوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو۔ آزادی اظہار، مساوی حقوق اور سیاسی استحکام کے فروغ سے ایک محفوظ اور خوشحال ماحول بنایا جائے جہاں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا کھل کر استعمال کر سکیں۔ بین الاقوامی شراکت داریوں کے ذریعے نوجوانوں کے لیے عالمی وظائف، سفر اور ملازمت کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں تاکہ وہ عالمی معیار کے تجربات حاصل کر سکیں۔
اگر یہ تمام سہولیات اور پالیسیاں موثر انداز میں نافذ کی جائیں تو پاکستان کے نوجوان اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ یوں پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں روزگار، آزادی، مہارت اور مواقع کی کوئی کمی نہ ہو، اور نوجوان اپنی صلاحیتوں کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
)مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا، جامعہ پنجاب لاہور سے وابستہ ماہرِ تعلیم اور محقق ہیں۔ ان کے 13 تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ دنیا کے اعلیٰ ترین امپیکٹ فیکٹر جرائد میں شامل ہیں۔ مختلف اخبارات میں مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔ ([email protected]