پاکستان کے تعلیمی نظام کی خرابیوں کی ایک وجہ اس سے منسلک اداروں کی گورننس میں موجود خرابیاں ہیں ۔کیونکہ جب ہم اپنے تعلیمی نظام اور اداروں میں کمزور قیادت ،اقربا پروری، میرٹ کا استحصال،سیاسی مداخلت ،من پسند فیصلوں،اہلیت کی بجائے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر اہم تقرریوں ، نگرانی اور احتساب کے نظام کی عدم موجودگی ،تعلیم میں اساتذہ کی عدم دلچسپی ، طلبہ واستاد یا مینجمنٹ کی سطح پر کمزور رابطہ کاری اور بیوروکریسی کی بے جا مداخلت کی بنیاد پر جامعات کے نظام کو چلانے کی کوشش کریں گے تو اصلاح کے امکانات خود ہی محدود ہوجاتے ہیں۔
جامعات کی گورننس کی ناکامی کا سارا ملبہ وائس چانسلرز یا پرو وائس چانسلرز یا ڈین سمیت شعبہ جات کے سربراہوں یا مالیاتی اور انتظامی افسران پر نہیں ڈالا جاسکتا ۔ یقیناً ان کی سطح پر بھی بہت سے معاملات میں کمزوریاں ، مسائل یا عدم شفافیت کا نظام ہے۔جامعات میں جہاں داخلی خرابیاں ہیں وہیں ہمیں خارجی سطح پر یعنی بیوروکریسی ، وزارت،حکومت اور وفاقی یا صوبائی ہائر ایجوکیشن سے بھی متعلقہ متوازن تجزیہ کی ضرورت ہے ۔
حکومت ایک خاص مقصد کے تحت سرکاری جامعات یا وائس چانسلرز پر ناکامی کا ملبہ ڈال کر اس بیانیہ کو بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ حالات میں سرکاری جامعات کو چلانا حکومت کے بس کی بات نہیں ۔اسی سوچ کی بنیاد پر کچھ لوگ یہ بیانیہ بنا کر بھی پیش کررہے ہیں کہ حکومت ان تمام سرکاری جامعات کو گورنمنٹ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلا کر نظام کو آگے بڑھائے ۔
لیکن اس کے برعکس حکمران طبقہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ خود جامعات کی خرابیوں میں کتنا حصے دار ہے اور اس کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے خود جو جامعات کا نظم ونسق یا گورننس سے جڑے معاملات متاثر ہو رہے ہیں اس کی ذمے داری کون لے گا۔ یہ جو ہم نے ان جامعات کے نظام کو چلانے کے لیے وائس چانسلرز یا ان کی ٹیم پر بھروسہ کرنے کی بجائے تمام معاملات کو بیوروکریسی یا سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور جہاں خود وائس چانسلرز اپنے آپ کو طاقت ور بیوروکریسی کے سامنے بے بس سمجھتے ہیں اس کا کیا علاج تلاش کیا جائے گا۔
یہ جو جامعات کا نظام شدید ترین مالیاتی بحران کا شکار ہے اسے دور کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اپنا کردار کیا ہے۔ کیونکہ اس وقت جو ہائر ایجوکیشن پر ہم تعلیم کے میدان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر خرچ کررہے ہیںوہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی ہائر ایجوکیشن کی ترجیحات کیا ہیں۔جب تعلیم پر ہم نے بجٹ ہی کم خرچ کرنا ہے یا ظاہر کرنا ہے کہ ہماری ترجیحات میں تعلیم سے زیادہ اور مسائل ہیں تو پھر اعلی تعلیم کے مسائل اور بربادی کا کیا رونا ہے ۔ یہ جو حکومتی، سرکاری ممبران اسمبلی کی جانب سے جامعات میں سیاسی مداخلت کی بنیاد پر سنڈیکیٹ میں تقرری ہے اور ان کی بے جا سیاسی مداخلت کی وجہ سے جو جامعات کے معاملات خراب ہورہے ہیںاس پر کیوں حکومت خاموش ہے۔
یقینی طور پر جامعات میں گورننس کا نظام شفافیت اور اہل قیادت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے ۔بالخصوص جامعات کے وائس چانسلرز اگر میرٹ پر ہیں تووہ کچھ بڑے اقدام کرسکتے ہیں ۔لیکن یہاں بھی یہ ستم ظریفی ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل خود اپنے اندر بے جا سیاسی مداخلتوں اور روائتی طرز کی سرچ کمیٹیوں سے جڑا ہوا ہے جس میں تعلیمی ماہرین کم اور بیوروکریسی کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے ۔لیکن یہاں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی )یو ای ٹی (لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد منیر کو مبارکباد دینی ہوگی جنھوں نے بہت کم عرصے میں اس جامعہ کی ساکھ کو بہتر بنایا ہے ۔ڈاکٹر شاہد منیر اس سے پہلے وائس چانسلر جھنگ یونیورسٹی اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سرکاری جامعات کا ادارہ جاتی سطح پرایک جائزہ لیا اور یہ کام ورلڈ بینک کے تعاون سے کیا گیا جس کا عنوان’’ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کی ترقی‘‘ تھا جس میں 46کے قریب اہم اور بڑی جامعات اور ادارے شامل ہیں۔اس میں ادارہ جاتی گورننس اور خود مختاری ،مالیاتی گورننس اور خود مختاری ،ہیومین ریسورس گورننس اور خود مختاری،اکیڈمک گورنس اور خود مختاری اور ریسرچ گورننس اور خود مختاری کے تناظر میں ادارہ جاتی فریم ورک کا جائزہ شامل تھا۔اس اہم جائزہ میںڈیسک ورک سمیت مختلف طریقہ کار جس میں براہ راست جامعات کا دورہ ،فیکلٹی سے ملاقات اور موجودہ دستاویزات کی بنیاد پر اس کا جائزہ شامل تھا۔ اس جائزہ رپورٹ میں یوای ٹی لاہور کو ایک ادارہ جاتی سطح پر بہترین اور ذمے دار جامعہ کا درجہ دیا گیا اورکہا گیا کہ اس جامعہ نے خود مختاری اور موثر گورننس کے نظام میںبہترین کارکردگی اور شفافیت کا عمل پیش کیا ہے۔
یقیناً اس کامیابی میں ادارے کے سربراہ ڈاکٹر شاہد منیر کی قیادت کا اہم کردار ہے جنھوں نے مختصر وقت میں اس کو ایک بہترین جامعہ میں تبدیل کیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس طرز کی اسٹڈی سے موجودہ جامعات کا ادارہ جاتی سطح پر جائزہ لیتا ہے اور ایسی جامعات کی پذیرائی بھی کررہا ہے جو ادارے بہتر کارکردگی کے ساتھ اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ ہے جہاں ان مشکل حالات اور محدود وسائل میں جامعات اور ان کی قیادت بہتر کارکردگی کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوںکو منوا سکتی ہیں۔
ہمیں بنیادی طور پر ہائر ایجوکیشن کی سطح پر نئے جدید ماڈل اور دنیا کی بہترین جامعات کے نظام سے سبق سیکھنا ہوگا کہ انھوں نے اس نظام کی بنیاد پرکیسے ترقی کی ہے اور کس حد تک وہ اعلی تعلیم کے میدان میں مالی اور سیاسی سطح کی سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔کیونکہ اگر ہم نے روائتی اور پرانے فرسودہ خیالات اور سوچ کے ساتھ جامعات کے نظام کو چلانا ہے اور اس میں سرکاری یا حکومتی مداخلت بھی شامل ہو تو پھر اس نظام میں بہتری کے امکانات اور محدود ہوجائیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کے تناظر میں حکومت کو اپنے موجودہ طرز عمل کا جائزہ لے کر درست ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔محض بیوروکریسی کی بنیاد پر ہائر ایجوکیشن کی ترقی ممکن نہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اعلی سطح پر ماہرین تعلیم اور سابق استاد یا بہترین سابق وائس چانسلرز کا فورم تشکیل دے یا ایسا کمیشن بنایا جائے جو تھنک ٹینک کی بنیاد پر جامعات کی بہتری اور جدیدیت پیدا کرنے کے لیے ایک بڑے فریم ورک کو سامنے لائے اور اس پر تمام فریقین کی مشاورت سے اسے حتمی شکل دی جائے۔کیونکہ اس وقت جامعات کی سطح پر شفافیت کے ساتھ سخت گیر اصلاحات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا تاکہ ہم داخلی اور خارجی محاذ پر بھی اپنی جامعات کی تعلیمی ساکھ کو بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔
اعلی تعلیم کی بہتر ی ہی ملک کو درپیش چیلنجز اور بالخصوص معیشت کے بڑے بحران سے نکلنے یا نئے روزگار پیدا کرنے کی طرف لے کر جاسکتی ہے ۔لیکن اگر حکومت اور جامعات نے موجودہ حالات کا ادراک نہ کیا تو پھر اس ملک کی اعلی تعلیم میں مثبت تبدیلیاں محض خواب بن کر رہ جائیں گی۔