اسلام آباد:
اعلیٰ عدالتوں کے سربراہان کی جانب سے بیرونی مداخلت کے خاتمے کیلیے میکانزم پر اتفاق کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم جو ایگزیکٹو کے اثر و رسوخ کو بڑھاتی ہے، کے خلاف درخواستوں کے فیصلے کے بغیر ہائیکورٹس کے ایس او پیز کس طرح بیرونی اثر و رسوخ ختم کرنے میں مؤثر ثابت ہوں گے۔
کئی وکلا کے خیال میں جب عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے ارکان خود انتظامیہ کے اثر و رسوخ سے مستفید ہو رہے ہیں وہ بیرونی مداخلت کیسے ختم کر سکتے ہیں۔
ایک تاثر ہے کہ خصوصاً26ویں ترمیم کے بعد ایگزیکٹو کی حمایت کے بغیر کوئی وکیل جج بن سکتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدالت کا جج سپریم کورٹ یا آئینی بنچ میں جا سکتا ہے۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ڈوگر اس اجلاس میں موجود تھے جس میں بیرونی مداخلت کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے کہا کہ وہ جج جو ایگزیکٹو کی گڈبک میں نہیں، انہیں اہم مقدمات میں نظر انداز کیا جا رہا ہے تو عدلیہ کی آزادی کیسے یقینی بنائی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیٹی نے طویل عرصے سے زیر التوا مقدمات اور کمرشل، ریونیو اور مالیاتی نوعیت کے مقدمات میں حکم امتناعی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ججوں، اٹارنی جنرل، اور چیئرمین ایف بی آر پر مشتمل کمیٹی کی منظوری دی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کو اس کمیٹی میں شامل کرنے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس نے وزیر خزانہ سے ملاقات کی اور ٹیکس اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ کھلا راز ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے بعد مداخلت کے مسئلے سے نمٹ نہیں سکی۔ خط کے بعد سے وہ جج مختلف قسم کی ہراسانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کے خلاف پراکسی شکایات دائر کی گئی ہیں۔ ایک سینئر وکیل کا خیال ہے کہ چھ ججوں کے خط کے معاملے میں سرنڈر نے اسکی بنیاد رکھی، 26ویں ترمیم صرف رسمی کارروائی تھی۔
جب جسٹس ملک شہزاد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے، انہوں نے انسداد دہشتگردی عدالت کے جج کی ہراسانی کے بارے میں سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ بھیجی تھی۔
یہ معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے۔ آئینی بنچوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی بحث جاری ہے۔ آئینی بنچ نے اب تک تین اہم مقدمات میں تین مختصر فیصلے دیے ہیں۔ چند ماہ گزرنے کے باوجود تینوں کیسز میں تفصیلی فیصلے ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔
ایک انٹرا کورٹ اپیل فوجی عدالتوں کے کیس میں تھی جہاں اکثریت نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ آئینی بنچ نے مخصوص سیٹوں کے کیس میں بھی ایگزیکٹو کو مایوس نہیں کیا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر کے حکومتی اقدام کی بھی توثیق کی۔
موجودہ اعلیٰ عدلیہ کوتصورات کی جنگ کا سامنا ہے۔ جو جج ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں، انہیں عدلیہ پر عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک میکانزم تیار کرنا چاہیے۔