کراچی پھر ڈوبے گا

کراچی میں دو بڑی ملیر اور لیاری ندیاں ہیں جو بارش کا پانی سمیت سیوریج کا پانی سمندر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتی ہیں



کراچی میں Cloud Burst نہیں ہوا، مگر کراچی چند گھنٹوں کی بارش میں ڈوب گیا۔ ڈسٹرکٹ اتھارٹی کے ایک ماہرکا کہنا ہے کہ ایک گھنٹے میں مسلسل 200 ملی میٹر بارش ہو تو اس کلائیمیٹ چینج کے مضمون میں Cloud Burst کہا جاتا ہے مگر کراچی میں 10گھنٹوں میں 140 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی، یوں Cloud Burst تو نہ ہوا مگر شہر کے تمام علاقے دریا اور ندی نالوں میں تبدیل ہوگئے، یوں اربن فلڈنگ ہوگئی اور 15 افراد اپنی جانوں سے گئے۔

کراچی میں جب بھی بارش ہوتی ہے تو کراچی ڈوب جاتا ہے۔ کراچی میں سالانہ اوسطاً 309.6 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش عمومی طور پر مون سون کے موسم میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں مون سون کا موسم جون سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔ کلائیمنٹ چینج کی بناء پر اب موسم سرما میں بھی بارش ہونے لگی ہے۔ کلائیمیٹ چینج سے کراچی براہِ راست متاثر ہوا ہے۔

2010 تک کراچی میں بارش اوسطاً 500 ملی میٹر تک پہنچ گئی۔ موسم کی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں مارچ سے نومبر تک بارش ہورہی ہے۔ وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1967 میں کراچی میں سب سے زیادہ 869ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ اس بارش نے شہر کے انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کردیا تھا۔ سیکڑوں افراد اس بارش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، مگر 1977 میں کراچی میں خوفناک بارش ہوئی تھی۔ ملیر ندی میں آباد بستیوں کے بہت سے لوگ اس بارش کی نذر ہوگئے تھے۔

ایک سینئر صحافی اس زمانہ میں سابقہ ڈرگ کالونی (موجودہ شاہ فیصل کالونی) میں رہتے تھے وہ اپنی یاد داشتوں پر زور دیتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ اس بارش میں بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ 2020 اور 2022  میں بھی اسی طرح کی قیامت برپا ہوئی۔ اب نئی صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ اب پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ریڈار موسم کے بارے میں بہت زیادہ بہتر پیشگوئی کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

گوگل اور بی بی سی کا موسم کی پیشگوئی کرنے والا جدید نظام موسم کے بارے میں بہت زیادہ بہتر پیشگوئی کرتا ہے، مگر کراچی میں ایک دن میں ہونے والی تباہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور بلدیہ کراچی شہر میں پانی کے جدید نظام کو تعمیرکرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، یوں ہر بارش تباہی ساتھ لاتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی انگریز سرکار نے جدید شہری سائنسی طریقہ کار کے تحت تعمیرکیا تھا ۔

کراچی میں دو بڑی ملیر اور لیاری ندیاں ہیں جو بارش کا پانی سمیت سیوریج کا پانی سمندر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ 1947 تک کراچی میں 500 کے قریب چھوٹے بڑے نالے تھے۔ یہ نالے کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے سیلابی پانی کے ساتھ بارش کا پانی بحیرہ عرب تک منتقل کرتے تھے۔ دونوں ندیوں کا پانی شہرکی ضروریات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک زمانے میں کراچی کھیتوں سے بھرا شہر تھا۔ ان کھیتوں کو ان ندیوں اور نالوں سے پانی ملتا تھا۔

کراچی کے بے ہنگم ٹاؤن پلاننگ کرنے والے ماہرین نے’’ چمک‘‘ یا سفارش کی بناء پر نالوں کے اوپر آباد ہونے والی بستیوں کے نقصانات کو گہرائی سے محسوس نہیں کیا۔ عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد کے مصنف اور شہری امور کے ماہر محمد توحید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مون سون کے موسم کی ہلاکتوں کی خبر شہری سیلاب میں بدلنے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر دونوں ہیں، اگر صورتحال صرف موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے تو موسمیاتی تبدیلی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر کراچی کے ڈوبنے کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک تباہ حال انفرا اسٹرکچر ہے۔

ایک تو شہر کا نکاسی کا نظام مؤثر نہیں رہا تو دوسری طرف روز روز کئی فرسودہ طریقے بھی پانی کی صفائی کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ اس دفعہ پھر خاطرخواہ رقم مختص کرنے کے باوجود نالوں کی صفائی مکمل طور پر نہیں ہوسکی۔ محمد توحید نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بہت سی جدید آبادیاں نالوں کے اخراج پر تعمیر ہیں اور پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ کوئی محض کچی آبادیاں نہیں ہیں بلکہ شہر کے پوش علاقوں میں نالوں پر کی جانے والی تعمیرات ہیں جس سے مائی کولاچی کے بائی پاس کی ناقص تعمیر سے شہر کے تین نالوں کا پانی رک جاتا ہے اور ان تین نالوں کے پانی کو سمندر تک لے جانے کے لیے ایک چھوٹے نالے کی شکل دیدی گئی ہے۔

اس کے باعث تیز بارش ہوتی ہے تو ان نالوں کا پانی اردگرد کے علاقوں کو متاثرکرتا ہے۔ اسی طرح ڈی ایچ اے کی تعمیرات محمود آباد کے پانی میں رکاوٹ ہیں اور بارشوں کی صورت میں ایک بڑا علاقہ زیرِ آب آجاتا ہے۔

ایسی ہی صورتحال نادرن بائی پاس پر بھی سامنے آتی ہے۔ اس کی سطح زمین سے اونچائی پانی کو سمندر میں جانے سے روکتی ہے کیونکہ اس کی تعمیر کے دورا ن پانی کی گٹر لائن کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح سپر ہائی وے کے اطراف بے جا تعمیرات اور جدید سوسائٹیوں نے قدرتی پانی کے بہاؤ کو روکا ہے جس کے باعث سعدی ٹاؤن اور اطراف کے علاقے بارش میں زیرِ آب آتے ہیں۔

 کمشنر کراچی نے 2020میں ہونے والی بارشوں کے بعد ایک رپورٹ تیار کرائی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سپر ہائی وے سے لے کر صفورا گوٹھ تک آباد ہونے والی بستیاں پانی کے بہاؤ کے راستے میں تعمیر ہوئی ہیں یوں جب بھی بارش ہوتی ہے سعدی ٹاؤن اور اطراف کی بستیاں متاثر ہونگی۔ ایک طرف تو پانی کے فطری بہاؤ کے لیے صدیوں سے کام آنے والے نالوں کی بندش اور ان میں رکاوٹیں ہیں تو دوسری طرف شہرکا سیوریج کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔

ہر محلے سے لے کر بڑی شاہراہوں تک سیوریج کا پانی عام دنوں میں بہنا عام سی بات ہے، پھر اگر معمولی سی بارش ہوجائے تو پھر قیامتِ صغریٰ کا سماں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بجلی غائب ہوتی ہے، واٹر سیوریج کارپوریشن والے جنریٹر کے استعمال پر یقین نہیں رکھتے، اس بناء پر گندا پانی کھینچنے والی مشینیں بند ہوجاتی ہیں۔ سڑکوں پر کام کرنے والے سگنلزکی روشنیاں گل ہوجاتی ہیں۔ منگل کو بارش ہوتے ہی پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوئی، سڑکوں پر پانی کی مقدار بڑھنے لگی، اسکول سے گھر جانے والے بچے اور کام سے واپس آنے والے مرد اور عورتیں براہِ راست متاثر ہوئے۔

بہت سے بچے اور عورتیں رات گئے تک گھروں کو پہنچ پائے۔ معمر افراد کا کہنا ہے کہ 1967، 1992، 2020 اور 2022 میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ میئر نے اعلان کیا ہے کہ بلدیہ کے پاس 40 ملی میٹر پانی سمندر میں کھینچنے کی گنجائش ہے مگر بدھ کو بارش 140 ملی میٹر ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 20 ہزار ارب روپے کہاں خرچ کیے؟ ڈی ایچ اے کے ایک مکین نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ ایک کشتی خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں بچوں کو گھر لاسکیں، مگر غریب علاقوں میں رہنے والے بیچارے کیا کریں؟ وزیر اعلیٰ نے بدھ کو عام تعطیل کا اعلان کیا تھا، انھیں لوگوں کے سڑکوں پر آنے میں حیرت ہے لوگ سڑکوں پر کیا کررہے ہیں۔

وہ یہ بات بھول گئے کہ وفاقی حکومت کے دفاتر اور تجارتی اداروں میں تعطیل نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے چند وزراء کے ساتھ شاہراہ فیصل کا دورہ کر کے اپنا فریضہ انجام دیا،گورنر نے گاڑیوں کو دھکا لگانے کی فوٹیج وائرل کر کے اپنے فرائض منصبی ادا کیے مگر شہر کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام پر یقین نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ یونین کونسل اورکونسلر کے اختیار کے اربوں روپے سالانہ خرچ کر کے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کارپوریشن اور واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے اہلکاروں کو پالا جارہا ہے، اگر شہر میں صفائی کا نظام بہتر ہو اور سیوریج کا جدید نظام کام کررہا ہو اور نالوں کو فعال کیا گیا ہو تو محلوں اورگلیوں میں اتنا پانی جمع نہیں ہوگا۔ غریبوں کے گھر تباہ ہونے سے بچ جائیں گے۔

 کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جس کی کوئی Ownership لینے کو تیار نہیں۔ صدر آصف علی زرداری کا بچپن اور جوانی کراچی کی سڑکوں پر گزری ہے مگر کراچی کے مسائل سے انھیں کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ترجیحات اور ہیں، وہ بہت کم کراچی آتے ہیں۔ عموماً ان کے پاس دن کے کچھ گھنٹے کراچی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں کراچی پہلے بھی ڈوبا تھا اور پھر ڈوبے گا۔

مقبول خبریں