مزاحمت

یہ موضوع ڈاکٹر صاحبہ کی طرح راقم کی بھی خاص دلچسپی کا باعث ہے



ممتاز محقق، ماہر تعلیم، مورخ اور مترجم ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی دوسری اہم تصنیف ’’مزاحمت‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ مزاحمت یحییٰ ابراہیم سنوار کے رپورتاژ ’’اشوک والقرنفل‘‘ کا اردو ترجمہ ہے، جو منصفہ نے اس کے عربی نسخے جو کہ نیو یارک ٹائمزکی آن لائن لائبریری میں پی ڈی ایف شکل میں دستیاب ہے، اس کے انگریزی ترجمے سے کیا ہے۔

اس تصنیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، انگریزی زبان میں یہThe Thorn and the carnation کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کا ایک اردو ترجمہ ’کانٹے اور پھول‘ کے عنوان سے حامد قاسم پالن پوری نے ستمبر 2024ء کو کیا جو انڈیا سے شایع ہوا، بعدازاں یہ ترجمہ من و عن لاہور پاکستان سے بھی شایع کر دیا گیا۔

اس عربی تالیف میں گزشتہ نصف صدی کے مقبوضہ فلسطین کی ایسی واضح تصویرکشی کی گئی ہے جو کسی عینی شاہد کے قلم سے ہی ہو سکتی ہے۔ یحییٰ سنوار نے اسرائیل کی بئرسبع جیل میں 2004ء میں اسے مکمل کیا۔ قیام اسرائیل سے لے کر مقبوضہ فلسطین پر اس لاوارث کی بربریت سے متعلق حقیقی واقعات کو جاننے کے لیے اس سے بہتر کتاب کوئی نہیں ہو سکتی جو کسی چشم دید گواہ کے مشاہدات اور تجربات کی حاصلات پر مبنی ہے، جس سے حکایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں نہ ناول جیسی ربط ہے نہ ہی واقعات میں کوئی ضبط (ترتیب)، کردار کچھ فرضی ہیں کچھ حقیقی۔ یہ تصنیف سر زمین معراج و اسراء کے متوالوں کے لیے ہے۔ 1948ء میں قیام اسرائیل کے بعد سات لاکھ فلسطینیوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا، ان کو زبردستی ان کی زمینوں مکانوں سے بے دخل کیا گیا، جو بطور مہاجرین لبنان، اردن اور مصر میں آباد ہوئے اور ایک بڑی تعداد غزہ پٹی اور مغربی کنارے پر آکر رہنے لگی جہاں آٹھ مہاجر کیمپ بنائے گئے۔

اس تصنیف میں ان بیگار کیمپوں کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے اور ان میں پل کر جوان ہونیوالے بچوں کے دکھ درد، مسائل اور نفسیات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ غزہ کے مقامی رہائشیوں اور مہاجرین کے درمیان طبقاتی سلوک ان کے نظریاتی، سیاسی، سماجی اختلافات غرض زندگی برتنے کے تقریبا تمام پہلو اس تالیف جوکہ تیس ابواب یعنی ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے میں موجود ہیں۔

اشوک (کانٹا) قبضے اور قرنفل (لونگ) ’’مزاحمت۔ (Resistance)‘‘ کا استعارہ ہے، اس لیے اس ترجمے کا عنوان ’’مزاحمت‘‘ رکھا گیا ہے۔ زیر نظر ترجمہ نہ لفظی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ غیر ضروری تفصیلات کے ساتھ بلکہ اصلی متن سے قریب تر رکھتے ہوئے ادبی انداز میں مترجم نے لکھنے کی کوشش کی ہے۔

مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے اہم اصطلاحات، شخصیات اور تاریخوں کے بارے میں مختصر حواشی بھی کر دیے ہیں، بعض مقامات پر تشریحی لفظ یا جملہ متن کے اندر ہی قوسین میں بھی دے دیا گیا ہے تاکہ قاری بغیر کسی الجھن کے اپنے مطالعے کو جاری رکھ سکے۔

یہ موضوع ڈاکٹر صاحبہ کی طرح راقم کی بھی خاص دلچسپی کا باعث ہے۔ ایک صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی فلسطینی اپنی ہی سرزمین کی آزادی کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ان سو برسوں میں اپنی ہی سرزمین کی آزادی پر مر مٹنے والے شہداء کے نام شمار نہیں کیے جاسکتے، ان میں سے ایک نام یحییٰ ابراہیم حسن سنوار کا بھی ہے۔

فلسطینی شہید یحییٰ سنوار 29 اکتوبر 1962ء کو خان یونس کے ایک رفیوجی کیمپ غزہ پٹی (مصر) میں پیدا ہوئے۔ سنوار نے اپنی ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن یہیں مکمل کیا اور غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی لٹریچر میں گریجویشن کیا، وہ حماس کے بانیوں میں شمار کیے جاتے۔

انھیں حماس کی عسکری ونگ کے لیے جنگی آلات بنانے کا ماہر بھی سمجھا جاتا۔ یحییٰ تین دفعہ گرفتار کیے گئے، پہلی بار 1982ء، دوسری بار 1985ء‘ اور تیسری بار 1989ء میں جس میں ان پر دو اسرائیلی اور چار فلسطینیوں کے قتل میں تعاون کا مقدمہ بنایا گیا جس پرچار دفعہ عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

جب وہ 1985ء میں رہا ہوئے تو رومی مشتہا کے ساتھ ’’مجد‘‘ یعنی منظمات الجھاد والدعوہ کی بنیاد رکھی جس کا اہم مقصد فلسطین میں موجود اسرائیلی جاسوسوں اور مخبروں کا پتہ لگانا تھا، یہی ادارہ آگے چل کر حماس کی پولیس کی شکل اختیار کر گیا۔ آپ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔

سنوار بہت اچھے لکھاری بھی تھے، انھوں نے یہودیوں کی تاریخ کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ دوران اسیری اسرائیلی اوپن یونیورسٹی سے پندرہ کورسسز سات سال میں مکمل کیے۔ انھوں نے عبرانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ بھی کیا، ان میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی شین بیٹ کے سابق سربراہوں کی خود نوشتوں کا ترجمہ بھی شامل ہے۔

اس قید و بند کے دوران انھیں شدید طبی مسائل کا سامنا بھی رہا جو جان لیوا بھی ہو سکتے تھے۔ بائیس سال اسیری میں رہنے کے بعد 2011ء میں ایک اسرائیلی گلاڈ شالٹ کے بدلے میں ایک ہزار چھبیس فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی جس میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔

اسی سال جب کہ وہ پچاس برس کے ہو چکے تھے انھوں نے شادی کی، ان کے تین بچے ہیں۔ ان کے ایران اور حزب اللہ سے قریبی روابط تھے۔ 2017ء میں جب حماس کی لیڈر شپ جس میں اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل اور ابو موسی شامل تھے جن کو غزہ سے جلاوطن ہونا پڑا تو یحییٰ سنوار غزہ کے اندر حماس کے قائد مقرر کیے گئے۔

سنوار اسرائیل سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے قائل نہیں تھے وہ سمجھتے کہ مزاحمت کے ذریعے ہی اسرائیل کو فلسطین سے نکلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، وہ دو ریاستی حل (Two State Solution)کے مخالف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، وہ غزہ میں صحت، تعلیم، پانی اور بجلی کی فراہمی جیسے فلاحی کاموں میں انتھک مصروف رہتے۔

اکسٹھ سال کی عمر میں یحییٰ ابراہیم حسن سنوار کی شہادت 16 اکتوبر 2024ء کو ہوئی۔ یحییٰ سنوار کی وفات کے بعد اس کی شخصیت کے بارے میں جستجو نے مترجم کو اس کتاب تک پہنچایا اور اس کے مطالعے کے دوران اس بات نے ڈاکٹر صاحبہ کو اور بھی متاثرکیا کہ 72 گھنٹے کے فاقے کے باوجود جس طرح اس نے تل سلطان کی گلیوں میں اپنے تین ساتھیوں اور رائفل AK-47 کے ساتھ قابض فوجیوں سے مقابلہ کیا اور زخمی ہوکر ایک گھر کے ملبے میں ٹوٹے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر جس طرح اس نے اپنے ہاتھ کے زخم سے خون کی روانی کو روکنے کے لیے ملبے سے ایک تار اٹھا کر اپنے بازو پر باندھا اور پھر جس طرح اس نے اپنے تعاقب میں آنیوالے ڈرون کواپنے زخمی ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے مارا، تب انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے خیالات و نظریات کو خوشبو کی طرح بکھیر دیا جائے۔

تاریخ فلسطین کا وہ ہمیشہ ایک ’ہیرو‘ رہے گا جس سے ’مزاحمت‘ کے استعارے کے طور پر یاد رکھا جائے گا چونکہ ایسی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں، بذات خود مصنف نے اپنی اس تصنیف کو بحر محیط سے خلیج تک! بلکہ بحر محیط سے بحر محیط تک کے متوالوں کے نام منسوب کیا ہے۔ راقم کو امید واثق ہے کہ یہ تصنیف زندانی ادب میں ایک قیمتی انمول اضافہ ثابت ہو گی اور ان ستاون اسلامی ممالک کو خواب خرگوش سے جگانے میں بھی معاون و مددگار ثابت ہو گی۔

مقبول خبریں