بدقسمتی سے ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں طویل عرصے سے دہشت گردی جاری ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز اس کا قلع قمع کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہی ہیں مگر لگتا ہے جب تک دہشت گردوں کے سہولت کارکیفرکردار تک نہیں پہنچائے جاتے دہشت گردی کو روکنا مشکل ہوگا۔
حال ہی میں ہماری خفیہ ایجنسیز نے نہایت محنت اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دہشت گردوں کے کچھ اہم سہولت کار گرفتار کیے ہیں۔ یہ گرفتاریاں بلوچستان میں ہوئی ہیں گرفتار سہولت کاروں میں ایک پروفیسر بھی شامل ہے جس کا تعلق بلوچستان یونیورسٹی سے ہے۔
اس پروفیسر نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کاری میں ملوث رہا ہے۔ اس نے خود تین درجن کے قریب خودکش بمبار تیار کیے تھے جنھیں مختلف مقامات پر دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بی ایل اے نے اگست کے چودہ دنوں کے لیے دہشت گردی کے پروگرام بنا رکھے تھے خاص طور پر 14 اگست کو خوفناک دہشت گردی کا پروگرام بنایا تھا۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ دنوں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر جو خودکش حملہ ہوا تھا، اس میں اس کا ہی تربیت یافتہ دہشت گرد استعمال ہوا تھا، اس نے اپنے اس فعل پر پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگی ہے۔
صوبے کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس سلسلے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پروفیسر کے ساتھ چار مزید سہولت کار گرفتار ہوئے ہیں، انھوں نے مزید بتایا کہ بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں صوبے میں محرومی کا پروپیگنڈا کرکے دہشت گردی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا مقصد صرف بھارت کے اشارے پر ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا اور ملک توڑنا ہے۔ یہ لوگ صوبے کے عوام کی محرومی کی آڑ میں جو دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں تو کوئی بتائے کہ یہ پروفیسر یا دیگر سہولت کار جو صرف دولت کے لالچ میں دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں تو انھیں کیسے محروم کہا جا سکتا ہے۔ یہ خود تو عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر غریبوں کو چند پیسوں کے عوض خودکش بمبار بنا کر ان کی اور ان کے خاندان کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔
سب سے بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں پولیس اور سیکیورٹی سے وابستہ بعض اہلکار بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پولیس کے کئی اہلکار چوریوں، ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہی نہیں بلکہ رنگے ہاتھوں موقعہ واردات پر پکڑے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں کوہاٹ میں سی ٹی ڈی اور پولیس کے دو اہلکار ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔
انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر دس محرم الحرام کو دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کرنے والے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں کا دہشت گردوں کا ساتھ دینا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔
کراچی میں بھی دہشت گردی اور ساتھ ہی چوریوں ڈکیتیوں کی وارداتیں ایک عرصے سے جاری ہیں مگر ان کا کوئی تدارک نہیں ہو پا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان وارداتوں میں پولیس بھی ملوث ہے۔
ایک تجزیہ کار کے مطابق یہ پولیس میں اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ جب پولیس میں نئے اہلکاروں کی بھرتی ہوتی ہے تو بعض کریمنل ذہنیت رکھنے والے نوجوان بھی سفارشوں کی بنیاد پر ملازمت حاصل کر لیتے ہیں مگر یہ ملازمت کے دوران بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو کم اور اپنی کریمنل سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں چنانچہ سب سے پہلے ان اندرونی سرکاری ملک دشمنوں کی سرکوبی کی ضرورت ہے۔
بلوچستان اور کے پی میں کئی مرتبہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہو چکے ہیں مگر یہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے اس کی وجہ بھی لگتا ہے سرکاری اہلکاروں کا دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافے کی ایک وجہ بھاری سیاسی پارٹیوں میں بعض ملک دشمن لوگ چھپے ہوئے ہیں جن کی شناخت ضروری ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں بلاشبہ وطن پرست ہیں مگر ان کے بعض بیانات ایسے ہوتے ہیں جن سے دہشت گردوں کو اپنی دہشت گردی جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے، اکثر یہ بلوچستان کے پسماندہ ہونے اور وہاں کے عوام کی محرومیوں کا ذکر کرتی رہتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ بات درست ہی ہے مگر ان کے بیانات سے دہشت گردوں کو تقویت ملتی ہے کہ وہ جو عوام کی محرومی کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ درست ہے جب کہ وہاں کے عوام اس دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے مسائل کا حل پرامن احتجاج کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں نہ کہ دہشت گردی سے۔
انھیں اچھی طرح پتا ہے کہ ان کے صوبے کو جو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ان کے مسائل کے لیے نہیں بلکہ دشمن کے ناپاک عزائم کے لیے ہے۔ بہرحال حکومت کو بلوچستان اور کے پی کے عوام کو دہشت گردی کے عذاب سے بچانا ہوگا مگر ساتھ ہی ان کے جائز مطالبات کو بھی پورا کرنا ہوگا۔
ان دونوں صوبوں میں خاص طور پر پولیس اور بیورو کریسی کا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک تو وہ دہشت گردوں کو رعایت دے رہے ہیں تو دوسری جانب خاص طور پر بیورو کریسی اور صوبائی بعض وزرا بھی وفاق کی جانب سے مقامی آبادی کو پہنچنے والے فوائد کو ان تک پہنچنے کے بجائے خود ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بلاشبہ حالیہ جنگ میں اہم کردار ادا کرکے دشمن کے دانت کھٹے کردیے ہیں چنانچہ دشمن اب سمجھ چکا ہے کہ وہ براہ راست جنگ کرکے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا چنانچہ اسے پاکستان کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اندر سے توڑنا ہوگا۔
حالیہ جنگ کے بعد خاص طور پر بلوچستان میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے ذریعے دشمن پنجابیوں اور بلوچوں کو باہم لڑا کر ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پنجابیوں اور بلوچوں میں کبھی کوئی مخاصمت نہیں رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو بلوچوں کی بڑی تعداد صوبہ پنجاب میں آباد نہ رہتی، پنجاب میں کئی سیاسی پارٹیوں کے اہم رہنما بلوچ ہیں۔
پاکستان اس وقت جس دہشت گردی میں پھنسا ہوا ہے، اب اس کے اصل سپورٹر سے دنیا واقف ہو چکی ہے کہ وہ بھارت ہے جو ہر قیمت پر پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے، اسی لیے امریکی حکومت نے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی بھارت کے اشاروں پر پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں پر پابندی لگا دی ہے۔
اس وقت دراصل بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہا ہے، اسرائیل غزہ پر بے رحمی سے تابڑ توڑ حملے کرکے فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح بھارت پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر ساتھ ہی جارحانہ حملے کرکے پاکستان کو کشمیریوں کی آزادی سے دور کرنا چاہتا ہے مگر نہ تو وہ فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گا اور نہ ہی بھارت کشمیریوں کو آزاد ہونے سے روک سکے گا۔
بلاشبہ اس وقت پاکستانی حکومت کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں پہلے جیسی سرگرمی نہیں دکھا رہی ہے، اس کی بڑی وجہ اندرونی دہشت گردی ہے جس کو ختم کرنے کے لیے حکومت اپنی پوری توجہ مرکوز کر رہی ہے مگر بھارت پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو مزید بڑھا رہا ہے تاکہ پاکستان اندرونی مسائل میں ہی الجھا رہے اور کشمیریوں کی آزادی پر توجہ نہ دے سکے، تاہم یہ اس کی غلط فہمی ہے پاکستان جلد ہی دہشت گردی پر قابو پا کرکشمیریوں کی آزادی کے لیے بھرپور توجہ مرکوز کرے گا اور دشمن کو اس کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔