عملی کام کے بجائے سیاسی الزامات

حالیہ بارش پر بھی پی ٹی آئی عوام کے مسائل پر جماعت کا ساتھ نہیں دے رہی کیونکہ اسے اپنے بانی کی رہائی کی زیادہ فکر ہے


[email protected]

چند گھنٹوں کی بارش نے تباہ حال شہر قائد کو پھر سے ڈبو دیا اور تمام شہری اداروں کی ایک بار پھر پول کھول کر رکھ دی جس کے بعد کراچی کے بے بس شہری کراچی کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر مختلف سیاسی الزامات اور خواتین کی طرح ایک دوسرے کو طعنے دینے کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور سب کی عملی کارکردگی مون سون کی دوسری بارش بے نقاب کر چکی ہے۔

یاد رہے دو ماہ قبل بھی کراچی میں بارش ہوئی تھی اس وقت بھی نالوں کی کوئی صفائی نہیں ہوئی تھی اور سندھ حکومت اور شہری ادارے مون سون کو سر پر دیکھ کر بھی سوئے ہوئے تھے اور ان کے خیال میں کراچی میں مون سون آئے گا نہیں کیونکہ مون سون کو کراچی کی حالت زار اور سڑکوں کی تباہ حالی کا احساس ہے وہ حکومتی اداروں کی طرح ظالم اور بے حس نہیں ہے اسے پتا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح بارش سے جو سڑکیں تباہ ہوئی تھیں ان پر ہی ایک سال میں توجہ نہیں دی گئی بس گڑھوں پر ملبہ ڈلوا دیا گیا تھا ان کی مرمت کی نوبت نہیں آئی تھی پھر بھی دو ماہ قبل کی بارش نے حکومتی اداروں کو جگانے کی کوشش کی تھی۔

حالیہ بارش سے صرف دو روز قبل وزیر بلدیات فرما رہے تھے کہ نالوں کی صفائی نہیں ہو سکی ہے ان کے خیال میں کراچی میں اب دوسری بارش نہیں ہوگی اور مون سون پھر برسے بغیر گزر جائے گا لوگوں کو سخت ترین گرمی اور کراچی کی پیاسی زمین پر ابر کرم برسنے کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ زیر زمین پانی مسلسل نیچے جانے سے بورنگیں خشک ہو گئی تھیں اور شہری پانی نہ ملنے اور شدید گرمی سے سخت پریشان تھے۔ پہلی بارش بے فائدہ رہی تھی۔

اس لیے ابر کرم کو ترس آ گیا اور چند گھنٹوں کی بارش نے شہر کو نہ صرف جل تھل کر دیا بلکہ محکمہ بلدیات اور شہری اداروں کی کارکردگی کی بھی پول مکمل طور پر کھول کر رکھ دی مگر یہ ادارے بھی سندھ حکومت کی طرح ڈھیٹ تھے کہ کسی نے بھی اپنی نااہلی کا اعتراف نہیں کیا بلکہ اپنی ناقص کارکردگی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا اور سب ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیانات اور الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔

سندھ میں 17 سالوں سے اس پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس کی بھرپور کوشش تھی کہ کراچی میں کسی نہ کسی طرح پی پی کا جیالا میئر لے آئے اور انھوں نے اپنی حکومت کی سالوں کی منصوبہ بندی سے یہ کارنامہ انجام دیا اور پہلی بار کسی نہ کسی طرح مرتضیٰ وہاب کو میئر کراچی بنوا دیا تھا جن کا تعلق کراچی سے ضرور ہے مگر بدقسمتی سے سیاسی میئر کام دکھا سکے نہ اپنے شہر والوں کو مطمئن کر سکے ہیں۔

جماعت اسلامی کراچی کے پی پی کے پہلے میئر کو قابض میئر قرار دیتی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ میئر کے الیکشن کے موقع پر پی ٹی آئی کے یوسیز چیئرمینوں نے جماعت اسلامی کو دھوکا دیا تھا جب کہ دونوں مل کر اپنا میئر اور ڈپٹی میئر لا سکتے تھے مگر پی ٹی آئی والے حکومت سندھ کی ملی بھگت سے غائب ہو گئے تھے اور حکومت جماعت سے زیادہ ووٹ لے کر اپنا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ایم کیو ایم پاکستان نے ماضی کی طرح بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور پی پی 13 ٹاؤن اور جماعت اسلامی اپنے 9 ٹاؤن ناظم منتخب کرا سکی تھی باقی چند پی ٹی آئی جیت سکی تھی۔ حالیہ بارش پر بھی پی ٹی آئی عوام کے مسائل پر جماعت کا ساتھ نہیں دے رہی کیونکہ اسے اپنے بانی کی رہائی کی زیادہ فکر ہے۔

ایم کیو ایم کے پاس بلدیاتی نہیں اسمبلیوں کی نشستیں ہیں اور وہ میئر کراچی، پی پی اور جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمینوں پر کرپشن کے الزامات لگاتی آ رہی ہے جب کہ صوبائی وزیر اور میئر کراچی اور جماعت کے کراچی کے امیر سندھ حکومت، میئر اور ایم کیو ایم کو کراچی کی موجودہ صورت حال کا ذمے دار قرار دے کر اینٹ کا جواب پتھروں سے دے رہے ہیں اور تینوں کی ایک دوسرے پر تباہ کن بارش کے سلسلے میں الزام تراشی عروج پر ہے مگر تینوں اپنے کام پر توجہ دینے کے بجائے شہر اور عوام کو اپنے سیاسی بیانات سے مزید دکھی کر رہے ہیں کسی کو شہر کا عملی احساس نہیں ہے۔

مقبول خبریں