9 ستمبر 2025 کی صبح کراچی والوں کےلیے ایک اور آزمائش لے کر طلوع ہوئی۔ مون سون کی بارشوں نے اس شہر کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لیا اور وہی مناظر دہرائے گئے جنہیں دیکھتے دیکھتے اہلِ کراچی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
شدید بارش کے بعد سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں، گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں، نشیبی رہایشی علاقوں میں پانی بھرگیا، کرنٹ لگنے اور سیلابی پانی میں ڈوبنے کے واقعات سامنے آئے۔ اور سب سے بڑھ کر عام آدمی ایک بار پھر حکومتی نااہلی اور ناقص حکمت عملی کا شکار ہوا۔
بارش کے اعداد و شمار اور فوری اثرات
محکمہ موسمیات کے مطابق صرف 9 ستمبر کو کراچی میں سو ملی میٹر سے زاید بارش ریکارڈ کی گئی، صرف سرجانی ٹاؤن کے علاقے میں 110 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی، جو کہ محض چند گھنٹوں کے اندر ہوئی۔ ضلع شرقی اور ضلع وسطی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ شارع فیصل، نرسری، گلشنِ اقبال، نارتھ ناظم آباد اور سہراب گوٹھ کے علاقے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے۔ درجنوں گاڑیاں خراب ہو کر سڑکوں پر کھڑی رہ گئیں۔
عوامی مشکلات: روزمرہ زندگی مفلوج
کراچی کا ہر شہری اس دن اپنی ہی کہانی لیے ہوئے تھا۔ کوئی اپنی بیمار ماں کو اسپتال لے جانے کے لیے کشتی تلاش کرتا رہا، کوئی اپنے بچوں کو اسکول سے لانے کےلیے کمر تک پانی میں ڈوبا۔ 9 ستمبر کی شام ہونے والی بارش میں دفاتر اور اپنے کام سے گھر واپس جانے والے شہری راستوں میں پھنسے رہے۔ ایک رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ شہر میں سڑکوں کی حالت پہلے ہی خراب ہے، ایسے میں شدید بارش کے بعد جمع ہونے والے پانی نے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ میرا رکشہ پانی میں آدھا ڈوب کر بند ہوگیا جس کے بعد رات تک وہیں رہنا پڑا۔
ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کے بچوں کے اسکول نے اس خراب موسم میں بھی چھٹی نہیں دی تھی، وہ خود بھی اسکول میں جاب کرتی ہیں۔ چھٹی کے بعد جب شام کو گھر واپس جانے نکلیں تو بارش تیز ہوچکی تھی، سڑکوں پر پانی موجود تھا۔ ان کی گاڑی بھی پانی میں بند ہوگئی۔ کئی گھنٹے وہ اپنی چھوٹی بچی کے ساتھ بارش میں کھڑی رہیں لیکن مدد کو کوئی نہ آیا۔
بجلی کی بندش اور مزید مشکلات
کراچی الیکٹرک کی ناقص نظامِ ترسیل نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ بارش کے چند ہی گھنٹوں بعد شہر کے تقریباً 65 فیصد علاقے بجلی سے محروم ہوگئے۔ کئی گھروں میں پانی بھرنے کے باعث برقی آلات جل گئے۔ بجلی کی بندش نے اسپتالوں کو بھی متاثر کیا اور مریضوں کے لواحقین کو جنریٹرز پر انحصار کرنا پڑا۔
سیلابی صورتحال اور حکومتی اقدامات کا فقدان
کراچی میں بارش کے بعد نالوں کی صفائی نہ ہونے کا مسئلہ پھر کھل کر سامنے آیا۔ بیشتر نالے کچرے اور تجاوزات سے بھرے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے بارش کا پانی نکلنے کے بجائے رہائشی علاقوں میں داخل ہوگیا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور صوبائی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ چند مقامات پر ڈی واٹرنگ پمپ لگائے گئے، لیکن پانی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ ان پمپوں کی کارکردگی بے اثر دکھائی دی۔
حکومتی وزرا اپنی "ناکارکردگی" کا شور تو بہت مچاتے ہیں اور بارش کے دوران فوٹو سیشن کےلیے نسبتاً صاف علاقوں کا دورہ بھی کرتے ہیں لیکن کبھی ان علاقوں میں نہیں گیے جو بارش سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
معیشت پر اثرات
بارش کے صرف ایک دن کے دوران شہر میں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ تجارتی مراکز بند رہے، چھوٹی دکانیں اور کاروبار پانی میں ڈوب گئے۔ سپرمارکیٹ کے ایک دکاندار نے بتایا ''بارش کے پانی نے سارا سامان خراب کر دیا۔ لاکھوں کا نقصان ہوگیا اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت صرف وعدے کرتی ہے، عملی مدد کہیں نہیں ملتی۔"
ٹریفک جام اور سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں نے پٹرول اور ڈیزل کے ضیاع میں بھی اضافہ کیا۔
یہ بارش صرف پانی نہیں لائی بلکہ شہریوں کے اندر مایوسی اور غصے کی ایک نئی لہر بھی پیدا کرگئی۔ ہر سال مون سون سے پہلے حکومتی دعوے کیے جاتے ہیں کہ اس بار شہر کو ڈوبنے نہیں دیا جائے گا، لیکن نتیجہ ہمیشہ وہی ہوتا ہے۔ بچے کمر تک پانی میں کھیلنے پر مجبور، بزرگ افراد گھروں میں قید، اور خواتین ہاتھوں میں برتن لیے چھت سے ٹپکتے پانی کو سنبھالتی رہیں۔
ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارش کے پانی کو سنبھالنے کے لیے برساتی نالوں کو فعال کرنا اور طویل المدتی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اربن پلاننگ کے ماہر ڈاکٹر عدنان کے مطابق "اگر شہر کے ڈرینیج سسٹم کو جدید خطوط پر استوار نہ کیا گیا تو ہر بارش ایک انسانی المیہ بنے گی۔ صرف کچرے کی صفائی نہیں بلکہ مستقل انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔"
مستقبل کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
اہلِ کراچی اب سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک ان کی زندگیاں بارش کی بوندوں کے رحم و کرم پر ہوں گی؟
اس صورتحال سے مستقل میں نمٹنے کےلیے درج ذیل اقدامات فوری کرنے ہوں گے:
- نالوں کی مکمل اور شفاف صفائی ہنگامی بنیادوں پر کی جائے۔
- بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ یہ پانی ضائع نہ ہو۔
- بجلی کے نظام کو جدید بنایا جائے تاکہ ہر بارش کے بعد شہری اندھیروں میں نہ ڈوبیں۔
- تجاوزات کے خاتمے اور منصوبہ بندی میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
حالیہ بارش نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ کراچی کے مسائل صرف قدرتی نہیں بلکہ انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ شہر جو ملک کی معیشت کا دل ہے، اسے ہر بار بارش کے بعد مفلوج ہوتے دیکھنا اہلِ کراچی کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں، ورنہ ہر بارش کے بعد یہی کہانی دہرائی جائے گی۔ اور یہی سوال باقی رہے گا کہ "آخر کراچی کب سنبھلے گا؟"
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔