سپر ٹیکس کیس کی سماعت؛ سپریم کورٹ نے ایف بی آر وکیل سے وضاحتیں طلب کرلیں

شوکاز نوٹس کے بعد درخواست دائر ہوئی، یہ تو ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی صورتحال ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس


ویب ڈیسک September 12, 2025

اسلام آباد:

سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران  عدالت عظمیٰ نے ایف بی  آر وکیل سے وضاحتیں طلب کرلیں۔

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران ایف بی آر کی وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے دو پیراگرافس میں تضاد پایا جاتا ہے، ایک جگہ لکھا ہے ٹیکس نہیں لگے گا اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ لگے گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس کمپنیوں سے لیا جا رہا ہے لیکن نقصان 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو ہو رہا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ حکومت ایسی پالیسیاں کیوں بنا رہی ہے جن سے سینئر شہری متاثر ہوں۔

عاصمہ حامد نے جواب دیا کہ وہ صرف قانونی نکات پر عدالت کی معاونت کر سکتی ہیں، فائدہ یا نقصان پر بات ان کے دائرہ کار میں نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا پروویڈنٹ فنڈ میں کٹوتی بھی ہوتی ہے اور یہ فنڈ بیواؤں کو بھی دیا جاتا ہے؟ اگر نیٹ بینیفشریز بیوائیں ہوں تو کیا کمپنیاں رقم دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کر سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے بعد درخواست دائر ہوئی، یہ تو ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی صورتحال ہے۔

سماعت کے دوران ایف بی آر کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکشن فور سی اور سیکشن 9 کو ملا کر پڑھا جانا چاہیے، تاہم دونوں سیکشنز میں انکم کی تعریف اوور رائیٹ نہیں ہو رہی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ ان سیکشنز کو ایک ساتھ پڑھنے کا مقصد کیا ہے اور کیا ان پر انکم سے استثنیٰ حاصل ہے؟

ایف بی آر کے ممبر ڈاکٹر اشتیاق نے کہا کہ یہاں بات آمدن کی ہو رہی ہے جبکہ ایکٹ کے تحت ٹیکس ریٹ فکس ہوتا ہے۔ عاصمہ حامد نے مزید وضاحت دی کہ 1979 کے آرڈیننس کے بعد ترمیم میں ٹیکس ریٹ مقرر کیا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

مقبول خبریں