سیلاب، آٹا اور موسمیاتی تبدیلی سے آگاہی

سیلاب کے باعث صرف فصلوں کا نقصان نہیں ہوا بلکہ گھروں میں ذخیرہ کیے گئے سال بھرکا اناج بھی تلف ہوگیا



پاکستان کے کھیت یہاں کی زمین دیہی جس پرکبھی کسانوں کے بیٹے خوشیوں کے گیت گاتے تھے، جہاں ہوا کے دوش پر گندم کی بالیاں لہراتی تھیں، مٹی کے ذروں میں رزق کی خوشبو بسی ہوتی تھی، کچھ عرصہ قبل وہ صبح جب زمین پانی میں ڈوب رہی تھی، دریاؤں نے اگرچہ صبرکا دامن پکڑ رکھا تھا، دریاؤں کی حدیں ابھی قائم تھیں، بند مضبوطی سے جمے ہوئے تھے، بارش کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری تھا۔ مگر پھر بھی بہت کچھ قابو میں تھا۔

ادھر پڑوس میں بھی بارشوں کا سلسلہ چل رہا تھا کہ وہاں ڈیمز بھرنے لگے، اس کا آسان حل تلاش کر لیا گیا کہ پڑوسی کو ڈبو دو، بس پھر کیا تھا ہندوستان نے اپنے ڈیمز کے اسپلز بغیر اطلاع کے کھولنا شروع کر دیے۔ دریاؤں نے ضبط کے بندھن توڑ دیے تھے، وہ حدیں پھلانگ رہے تھے۔ بند ٹوٹے چلے جا رہے تھے، پانی چھتوں کو پھلانگ کر ہر طرف تباہی پھیلا رہا تھا۔

زمینوں پر کھڑی فصلیں دب کر مٹ گئی تھیں، ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔ کھیت کی فصلیں تو ایک طرف گھروں کی چھتیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ انسان ڈوبتے چلے جا رہے تھے، بچے بہتے چلے جا رہے تھے۔ جانوروں نے پانی کی منہ زور لہروں کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔ فصلیں پانی کے تیور دیکھ کر گرتی چلی جا رہی تھیں اور آہستہ آہستہ زمین میں دبنا شروع ہوگئی تھیں۔

سیلاب کے باعث صرف فصلوں کا نقصان نہیں ہوا بلکہ گھروں میں ذخیرہ کیے گئے سال بھرکا اناج بھی تلف ہوگیا تھا۔ ’’ پاسکو‘‘ سمیت سرکاری ذخائر میں سے گندم کی بڑی مقدار کو نقصان پہنچا۔ گل سڑ کر رہ گئیں، بہت سے گودام سیلاب کا شکار ہوکر رہ گئے۔ بعض اندازوں کے مطابق گندم کے ذخائر کا 30 فی صد سے زائد حصہ تلف ہوا یا برباد ہوکر رہ گیا۔

انھی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ سے گندم کی قیمت اور آٹے کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ ادھرگندم کی نئی فصل آٹے میں ابھی 7 ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ لہٰذا مافیاز، ذخیرہ اندوز، سرمایہ کار اور دیگر افراد اس سلسلے میں متحرک ہو چکے ہیں اور گندم کی بھاری مقدار چھپانے کا سلسلہ جاری ہے۔

پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ گندم فیڈ ملز کے استعمال میں نہ لائے جائیں۔ اصل ذخائر کتنے ہیں، اس کی معلومات لی جا رہی ہیں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔ حکومت نے بعض علاقوں میں مفت گندم کے بیج دینے کا اعلان کیا ہے اس سے آیندہ فصل کے لیے کسان کم از کم بیج کے خرچ سے بچ جائیں گے۔

اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکم دیا ہے کہ پنجاب بھر میں میسر سرکاری اراضی پر گندم کاشت کی جائے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ حکومتی سطح پر اعلان کیا جائے کہ ہر ہر کمپنی جس کے پاس خطہ اراضی غیر کاشت شدہ ہے۔ بہت سے سرکاری کالجز اور اب تو نجی کالجز اور اسکولوں کے پاس بھی بڑی بڑی اراضی موجود ہیں۔

ان پر گندم کی کاشت کے علاوہ پھل، سبزیاں تک اگائی جا سکتی ہیں اور ایسی زرعی زمینوں یا اراضی کو حکومت کی جانب سے مفت بیج مہیا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی ہیں جہاں کسی بھی قسم کی زرعی آبادکاری نہیں ہوئی بلکہ جب سے سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا وہ جگہیں خود رو جھاڑیوں سے اٹی پڑی رہتی ہیں لیکن اس کا اصل فائدہ کبھی نہیں اٹھایا گیا۔

آج کل کسان یہ شکایت کرتے بھی نظر آ رہے ہیں کہ جلدازجلد گندم کی قیمت خرید مقرر کی جائے۔ غالباً پنجاب میں اس سلسلے میں اعلانات ہو چکے ہیں کہ کتنی رقم کی گندم خریدی جائے گی۔ حکومت نے سروے کا آغاز کر دیا ہے اب تک ایک لاکھ 27 ہزار متاثرہ کسانوں سے ڈیٹا حاصل کر لیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں 3 لاکھ 42 ہزار ایکڑ اراضی کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح 58 ہزار سے زائد مویشیوں کی ہلاکت کا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب اس سلسلے میں مزید کام جاری ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر متاثرہ کسانوں کو بیج، کھاد، ادویات اور خاص طور پر بیج کی ایسی اقسام فراہم کی جائیں جوکہ سیلابی پانی کے ٹھہرنے کے بعد زمین کو پہنچنے والے نقصان ، اس میں موجود نمی اور دیگر باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زرعی سائنسدانوں کی ہدایات کی روشنی میں بیج فراہم کیے جائیں۔ اسی طرح کھاد کی اب کتنی مقدار استعمال کی جائے اور کپڑے، ادویات، زرعی ادویات، مختلف اقسام کے چھڑکاؤ اور دیگر باتوں کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ گندم، دالوں اور دیگر اشیا کی درآمدات کا جائزہ لے کر گندم، دالوں کی قیمت کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے درآمدات کا جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے میں مستقبل کی تیاری کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب نئے سرے سے سیلابی راستوں کا تعین کرنا پڑے گا۔ صدیوں سے جن راستوں کو دریا نے ترک کر دیا تھا، اب پھر ان پر اپنا حق جما رہا ہے۔

اب دریاؤں کی مرضی کے مطابق ان کو راستہ دینا ہوگا۔ ندی نالوں کے راستوں پر بنی ہوئی رہائشی عمارتوں کو ہٹانا پڑے گا۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے لوگوں کی تعلیم و تربیت ان کی فنی تربیت، تیراکی، کشتی رانی کا سیکھنا لازمی قرار دیا جائے۔ صرف سیلاب ہی نہیں، کلاؤڈ برسٹ، طوفانوں سے بچاؤ کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ پوری قوم کو اس سلسلے میں اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ سیلاب کے جانے کے بعد سب کچھ بھول جانا، آیندہ آنے والی مصیبتوں سے آنکھ بند کر لینے کے مترادف ہوتا ہے، جس کے اب ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

بھارت کے بعض افراد کا کہنا ہے کہ ہمیں اس سیلاب اور تباہی سے آگاہی 6 ماہ قبل ہی حاصل ہو چکی تھی اور ہم تیاری کر رہے تھے، لہٰذا سیلاب سے ان کا کم سے کم نقصان ہوا جب کہ عالمی ادارے اور پاکستان کے بعض ماہرین موسمیاتی تبدیلی کے ماہر مثلاً مجتبیٰ بیگ اور ان کی ٹیم کے دیگر اراکین اس سلسلے میں لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے ماہرین کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عوام کو آگاہی کے کام کو حکومت اور ماہرین مل کر آگے بڑھا سکیں۔

مقبول خبریں