قومی اسمبلی سے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

27ویں آئینی ترمیم بل کو اضافی ترامیم کیساتھ پیش کیا گیا، اضافی ترامیم کو منظوری کےلیے سینیٹ بھجوایا جائے گا


وقاص احمد November 12, 2025

قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل اور اضافی ترامیم کی 2 تہائی اکثریت سے منظوری دے دی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کی 50 شقوں میں ترامیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دی۔ آئینی ترمیم کے حق میں 234مخالفت میں 4ووٹ آئے۔

آئینی ترمیم کی منظوری کےدوران وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے سینیٹ سے منظور 27ویں آئینی ترمیم میں 6اضافی ترامیم پیش کی جنہیں منظور کیا گیا۔

اضافی ترامیم کیا ہیں؟

آرٹیکل 6 کی شق 2اے میں ترمیم کر کے عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کیساتھ وفاقی آئینی عدالت کو شامل کرلیا گیا جبکہ آرٹیکل 10سمیت دیگر پانچ آئینی ترامیم میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کو شامل کیا گیا ہے۔

ترمیم کے تحت چیف جسٹس آئینی عدالت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں سے سنیئر چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے۔ ترمیم کے تحت صدر مملکت ،چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل سے حلف لینے کے مجاز چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔

27ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائیگا جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت کا تقرر تین سال کیلیے کریں گے اور ججز کی ریٹائرمنٹ کی حد 68 سال ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں : آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کی عروج ہے، آج بے نظیر کی روح کو بہت تسکین ملے گی، وزیراعظم

عدالتی ڈھانچے میں تبدیلی

قومی اسمبلی نے عدلیہ کے ڈھانچے اور اختیارات سے متعلق تاریخی ترامیم کی منظوری دی۔ ترامیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا قیام، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیلِ نو سے متعلق شقیں شامل کی گئی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تشکیلِ نو کر دی گئی۔ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹسز اب کمیشن کے رکن ہوں گے۔ دونوں عدالتوں کے ایک ایک سینیئر ترین جج بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے جبکہ چیف جسٹس کی مشترکہ نامزدگی پر ایک اضافی جج دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں تقرری کا فیصلہ کثرتِ رائے سے کیا جائے گا۔

ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی سربراہی وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میں سے سینیئر جج کے پاس ہوگی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نامزد کردہ خاتون، غیر مسلم یا ٹیکنوکریٹ ممبر کے لیے دو سال کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ’کسی کاباپ بھی18ویں ترمیم ختم نہیں کرسکتا۔‘بلاول کی تقریرکےدوران اپوزیشن کااحتجاج،اذانیں بھی دینےلگے

آئین کے آرٹیکل 184 کو حذف کر کے سپریم کورٹ کا از خود نوٹس (سوموٹو) اختیار ختم کر دیا گیا جبکہ آرٹیکل 200 میں ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔

ترمیم کے تحت ججز کے تبادلے صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کریں گے اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔

آرٹیکل 206 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں تقرری پر انکار کرنے والے ججز کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا اور اُن کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم کے تحت یہ شق شامل کی گئی ہے کہ آئین میں کی گئی کسی ترمیم پر کسی بھی عدالت کو کسی بنیاد پر ترمیم سے سوال اٹھانے کا اختیار نہیں ہوگا۔

وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق شقیں بھی بل میں شامل کی گئی ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے جبکہ چاروں صوبوں سے مساوی نمائندگی کے اصول کے تحت ججز تعینات کیے جائیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے کم از کم ایک جج آئینی عدالت میں شامل ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کی مدتِ ملازمت تین سال اور عمر کی حد 68 سال مقرر کی گئی ہے۔ بطور چیف جسٹس نامزد ہونے والے جج کی جانب سے تقرری سے انکار کی صورت میں اسے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی کے اہم اجلاس کے دوران ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور شدید نعرے بازی کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھالتے ہوئے شدید احتجاج اور پھر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی، چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان اور رکن اسمبلی ثنا اللّٰہ مستی خیل نے حکومت کی پالیسیوں کو آئین اور جمہوریت کے خلاف قرار دیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ایوان میں نعرے بازی ہوئی، اسپیکر ڈائس کے سامنے ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ ترمیم کے حق میں حکومتی اور اتحادی اراکین کھڑے ہوگئے جبکہ اپوزیشن اراکین اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، جبکہ حکومت اسے آئینی استحکام کی ضمانت قرار دے رہی ہے۔

اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں ستائیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر ایوان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر رہا، اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حکومت پر آئین شکنی اور جمہوریت دشمن اقدامات کا الزام عائد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عوام کی حکمرانی کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ یہ ترمیم غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر لائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی گئی، مگر نوجوانوں نے ان پر اعتماد برقرار رکھا۔

چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ان کی جماعت کو ایوان سے باہر رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات کی ہر کوشش کی، مگر ہمارے ایم این ایز کو پارلیمنٹ ہاؤس سے اٹھایا گیا۔ 26 نومبر کو ہمارے کارکنوں کی شہادتیں ہوئیں۔ پھر بھی ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

رکن اسمبلی ثنا اللّٰہ مستی خیل نے بھی ترمیم کو عدلیہ کو دبانے کی کوشش قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم عدلیہ کو زنجیروں میں جکڑنے کے لیے لائی جا رہی ہے۔ اسلام اور قانون میں کسی کو استثنیٰ کی اجازت نہیں۔

27ویں آئینی ترمیم کے حق میں 234ارکین نے ووٹ دیا، 4 اراکین نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

قومی اسمبلی سے اضافی ترامیم کی منظوری پر بل کو دوبارہ سینیٹ کو بھجوایا جائے گا۔

قبل ازیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تاڑ نے ملاقات کی تھی، ملاقات میں نوید قمر، شیری رحمان، مرتضیٰ وہاب اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد صحافی نے سوال کیا تھا کہ ایک آدمی کو نوازنے سے متعلق ترمیم ہو رہی ہے، بلاول بھٹو نے جواب دیا تھا کہ میں تقریر میں بات کروونگا۔

سوال کیا گیا کہ 27 ویں ترمیم پر پاکستان پیپلزپارٹی پر بہت تنقید ہو رہی ہے؟، بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پر ہمیشہ ہی تنقید ہوتی ہے۔

اعظم ندیر تارڑ نے بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 27 ویں ترمیم سے متعلق دو تین اچھی تجاویز پر بات چیت جاری ہے، آج27 ویں ترمیم پر ووٹنگ ہوگی
سینیٹ سے منظور شدہ ترمیم میں کچھ تبدیلی ہوئی تو اس تبدیلی کی حد تک سینیٹ سے منظوری ہوگی۔

وزیر قانون نے کہا کہ اگر کسی پر ابہام ہو تو ان پر بحث کرنا مناسب ہے، قومی اسمبلی میں ابہام سے متعلق بحث کرلیں گے۔

سوال کیا گیا کہ آپ کا موقف تھا کہ ججز آئین کو دوبارہ تحریر کر رہے ہیں، اسپر انہوں نے جواب دیا کہ آرٹیکل 239 میں آئین بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے، آئینی عدالت کو آئین ری رائٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

وزیر قانون سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے قانونی ٹیم سے مشاورت کی، مشاورتی اجلاس میں شیری رحمان ،فاروق ایچ نائیک شریک تھے۔

اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کی آج منظوری کا امکان ہے جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت وفاقی آئینی عدالت کے جلد قیام کی خواہاں ہے۔

 

مقبول خبریں