وزارتِ داخلہ نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے عام پاکستانی شہریوں کو ویزے جاری نہیں کیے جارہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرپرسن ثمینہ ممتاز زہری کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ اس وقت یو اے ای پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا اور صرف ڈپلومیٹک اور بلیو پاسپورٹ ہولڈرز کو ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی پاسپورٹ پر پابندی لگتے لگتے رہ گئی
حکام کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ پر پابندی لگتے لگتے رہ گئی ہے اور اگر پابندی لگ جاتی تو اسے ہٹوانا انتہائی مشکل ہو جاتا۔
61 ممالک میں 21 ہزار 647 پاکستانی قید ہیں
وزرات داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 61 ممالک میں 21 ہزار 647 پاکستانی قید ہیں اور ان میں سے زیادہ تر معمولی نوعیت کے جرائم جیسے اوور اسٹے، شناختی فراڈ اور بینک فراڈ میں ملوث ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق مشنز کے پاس 90 فیصد کیسز کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے اور اکثر ممالک عید کے موقع پر عام نوعیت کے قیدیوں کو رہا کر دیتے ہیں۔
پانچ لاکھ افغان شہری پاکستانی پاسپورٹس پر بیرونِ ملک مقیم گئے
اجلاس میں وزارتِ داخلہ نے ایک اور سنگین انکشاف کیا کہ پانچ لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستانی پاسپورٹس پر بیرونِ ملک مقیم رہے اور بعض نے خود کو پاکستانی ظاہر کرکے جرائم میں بھی حصہ لیا، جس کا نقصان پاکستان کو بھگتنا پڑا۔
حکام نے بتایا کہ نادرا نے تمام شہریوں کا ڈیٹا ڈیجیٹل کر لیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
8 لاکھ پاکستانی خلیجی ممالک میں مزدوری کررہے ہیں
سیکرٹری وزارتِ داخلہ نے بتایا کہ بیرونِ ملک جانے والی پاکستان کی 93 فیصد افرادی قوت خلیج میں جاتی ہے اور تقریباً 8 لاکھ پاکستانی اس وقت وہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے انسانی اسمگلنگ کے بڑے نیٹ ورکس سرگرم ہیں، جو نوجوانوں سے 43 سے 50 لاکھ روپے تک وصول کر کے انہیں خطرناک اور غیر قانونی راستوں پر دھکیل دیتے ہیں۔
چیئرپرسن کمیٹی نے انسانی اسمگلنگ کے بڑھے ہوئے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو اس کے خطرات سے آگاہ کرنا ضروری ہے، مگر ایئرپورٹس اور شہروں میں آگاہی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کمیٹی نے متعلقہ اداروں کو انسانی اسمگلنگ کے خلاف فوری آگاہی مہم شروع کرنے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی قونصلر سہولتوں میں بہتری اور شناختی فراڈ کی روک تھام کے لیے جامع اقدامات کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ملک میں جینڈر بیسڈ وائلنس، انسانی اسمگلنگ، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے مسائل اور شناختی دستاویزات کے غلط استعمال سے متعلق سنگین انکشافات بھی ہوئے۔
جینڈر بیسڈ وائلنس کے 70 فیصد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے
اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان نے بتایا کہ ملک میں جینڈر بیسڈ وائلنس کے 70 فیصد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے جبکہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں سزا کی شرح صرف 5 فیصد ہے۔
ان کے مطابق ریپ کیسز میں سزا کی شرح صرف پانچ فیصد، اور گھریلو تشدد کے کیسز میں صفر اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ 480 جینڈر بیسڈ کورٹس کے باوجود نتائج تسلی بخش نہیں اور رپورٹ کرنے والی خواتین کو شدید رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔