آج پانچ برس بیت گئے، 30 نومبر2020 کی ایک خاموش مگر سرد شام کو میرے ابو جی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے اور یکم دسمبر کو انھیں آبائی گاؤں کھوڑہ وادی سون میں اپنے والد کے پہلو میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
مگر ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں، ان کا شمار پاکستان کے اُن کالم نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے صحافت کو محض خبر رسانی یا تبصرہ نگاری نہیں بلکہ تہذیب، زبان، تاریخ اور فکری ارتقاء کے ساتھ جوڑے رکھا۔
ان کے کالم صرف رائے نہیں ہوتے تھے بلکہ قاری کو تہذیبی شعور، سیاسی بصیرت اور لسانی حُسن کا ایک مرکب پیش کرتے تھے۔ ان کی تحریر کے اندر ایک ایسا خلوص، طنز اور فکری گہرائی تھی جو آج خال خال ہی دکھائی دیتی ہے ۔
یہ دنیا لفظوں کی دنیا ہے لیکن ہر شخص کو یہ نعمت نہیں ملی کہ وہ لفظوں سے دلوں کے در کھول سکے۔ عبدالقادر حسن وہ درویش اورقلندر صحافت تھے جنھوں نے لفظوں کو فقط قلم کی زینت نہیں بنایا بلکہ انھیں ایک تہذیب کا نمایندہ، ایک معاشرت کا نقیب اور ایک قوم کا حافظہ بنا دیا۔
وہ کالم نگار نہیں، ایک عہد تھے۔ایک ایسا عہد جس میں صحافت، ادب اور تاریخ ایک صفحے پر یکجا ہو جایا کرتے تھے۔ان کی شخصیت میں ایک عجیب طرح کا وقار اور تنہائی کا بانکپن تھا۔
وہ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان نہیں تھے، کسی مکتبِ فکر کے مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ضمیر، اپنی بصیرت اور اپنے تجربے کے سفیر تھے۔ ان کی تحریروں میں ایک ایسی خودداری، ایسا اعتماد اور ایسی صداقت تھی جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی۔
کالم نگاری اگر فقط خبر کی تہہ میں چھپے تجزیے کا نام ہے تو عبدالقادر حسن نے اس فن کو نثر کے ایک نئے اسلوب سے نوازا۔ ان کے جملوں میں فارسی اور اردو کے الفاظ اس طرح سے ملتے کہ جیسے کسی پرانی مسجد کی محراب میں روشنی چھن چھن کر آ رہی ہو۔
ان کے ہاںمزاح اورطنزکا رشتہ محض ہنسی کا سامان نہیں بلکہ وہ اس سے معاشرتی زوال پر ایک گہرا نوحہ تحریر کرتے تھے۔انھوں نے کبھی اپنی تحریر کو چیخنے نہیں دیا مگر اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
ان کا قلم بہت مہذب تھالیکن اس کے وار بہت گہرے ہوتے تھے۔ وہ حکمرانوں پر تنقید کرتے تو تہذیب کی چادر اوڑھ کر اور عوام کی بات کرتے تو درد کی زبان میں۔ وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے، ان کے کالموں میں امید بھی ہوتی تھی اور خبردار کرنے والی چنگاری بھی۔
کالم لکھتے وقت وہ کبھی تیزی نہیں دکھاتے تھے، ان کی رفتار گھوڑے کی نہیں اونٹ کی تھی، متین، بامعنی، گہری اور دوررس۔ ہر کالم ایک ایسا چشمہ ہوتا جو صحافت کے پیاسے قاری کو سیراب کر دیتاتھا ۔
ان کی زبان میں شوخی تھی مگر شائستگی کا ساتھ بھی تھا۔ انھوں نے زبان کو کبھی بازاری نہیں ہونے دیا اور نہ ہی خیالات کو سطحی ہونے دیا۔شاید اس لیے ان کا ہر جملہ آج بھی ایک حوالہ ہے۔
جب سیاست دان اپنی چالاکیوں میں الجھے ہوتے تب عبدالقادر حسن کا قلم ایک ایسا آئینہ بن جاتا جس میں ہر چہرہ بے نقاب ہو جاتا۔ ان کا اندازِ بیان سادہ مگر پرتاثیر، ان کی سوچ نظریاتی مگر زمینی اور ان کی وفاداری صرف سچ اور پاکستان کے ساتھ تھی۔
ان کی زندگی کے آخری برسوں میں جب صحافت کارپوریٹ مشین بن چکی تھی، جب سچ بولنا جرم سمجھا جانے لگا، تب بھی ان کا قلم جھکا نہیں۔ انھوں نے اپنی خودداری، اپنی فکری آزادی اور اپنی صحافتی سچائی کا سودا نہیں کیا اور ان کی تحریریں اس کی گواہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کے جانے کے بعد پاکستانی صحافت کا ایک پورا باب بند ہو گیا۔عبدالقادر حسن کی کمی محسوس ہوتی ہے اور شاید ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی کیونکہ وہ صرف لکھتے نہیں تھے وہ ہمیں آئینہ دکھاتے تھے۔
اور آج جب ہم اُس آئینے سے منہ چُرا رہے ہیں تو ان کے کالموں کی بازگشت ہمیں اپنی اصل یاد دلاتی ہے۔ ان کے دیہی پس منظر، عربی و فارسی کی تعلیم اور کلاسیکی ادب سے گہری وابستگی نے ان کی نثر کو جو تہذیب، وقار اور معنویت عطا کی وہی دراصل ان کی شناخت بنی۔
تحریر کا اصل جوہر اُس وقت نکھرتا ہے جب اس کے پیچھے صرف مشق یا علم نہ ہو بلکہ ایک جیتی جاگتی زندگی، ایک خاص تہذیب، اور گہرے مشاہدے کی آنچ ہو۔ عبدالقادر حسن انھی چند گنے چنے اصحابِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے کالم نگاری کو محض تجزیے کا میدان نہیں رہنے دیا بلکہ اسے تہذیبی فہم، لسانی، جمالیات اور فکری گہرائی کا مرکب بنا دیا۔
وہ گاؤں کے باسی تھے مگر ان کی تحریر شہروں کی فصیلوں سے بلند اور تاریخ کے دریچوں سے آشنا تھی۔ان کے قلم کی بنیاد صرف اردو زبان پر نہیں تھی بلکہ انھوں نے باقاعدہ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں ایک ایسا بانکپن، ایک ایسی کلاسیکی سنجیدگی اور لسانی لطافت نظر آتی ہے جو آج کے بیشتر کالم نگاروں کی تحریر میں مفقود ہے۔ وہ فارسی کے اشعار کو فقط برائے وزن،ِ بیت استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اشعار ان کے فکر کا نچوڑ، ان کی دلیل کا حُسن اور ان کے کالم کا روحانی عکس ہوتے تھے۔
ان کی تحریر میں اگرچہ طنز کی کاٹ موجود تھی مگر اس کا آہنگ ہمیشہ شائستہ اور اس کی بنیاد ہمیشہ فکری صداقت پر ہوتی تھی۔ ان کے کالموں میں جہاں معاصر سیاست کا جائزہ ہوتا، وہیں کسی گوشہ نشین صوفی کی بات یا کسی فارسی شاعر کا مصرعہ اُس تحریر کو روحانی بُعد دے دیتا۔ مثلاً جب وہ غالب، سعدی یا حافظ کو کوٹ کرتے تو محض اس لیے نہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہو بلکہ اس لیے کہ وہ خود اُن اشعار کو جِیا کرتے تھے۔
ایک دیہاتی کا تہذیب یافتہ ہونا، صرف لباس یا زبان سے ثابت نہیں ہوتا، وہ اس کی سوچ، اس کے رویے اور اس کی تحریر میں جھلکتا ہے۔ عبدالقادر حسن اس کی بہترین مثال تھے۔ ان کے ہاں دیہات کی سادگی، زمین کی خوشبو اور روایتی علم کا وقار سب ایک ساتھ چلتے تھے۔
وہ سیاسی مسائل پر لکھتے مگر انداز بیان ایسا ہوتا جیسے کوئی بزرگ داستان گو اپنے پوتوں کو کسی پرانی جنگ کا قصہ سنا رہا ہو۔ان کی عربی و فارسی کی تعلیم نے انھیں صرف زبان نہیں دی بلکہ اُن زبانوں کی تہذیب، صبر، لطافت اور علم سے آشنا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے کالم پڑھتے ہوئے قاری کو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ صرف خبر نہیں پڑھ رہا بلکہ وہ کسی فکری مجلس میں شریک ہے۔ ان کی تحریر میں ماضی کا وقار، حال کا تجزیہ اور مستقبل کی بصیرت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عبدالقادر حسن کبھی لفاظی کے اسیر نہ ہوئے۔ انھوں نے زبان کو بوجھل نہیں ہونے دیابلکہ سادگی اور شائستگی کے ساتھ اپنی بات اس انداز میں کہی کہ نہ صرف عام قاری اُن سے وابستہ رہا بلکہ خواص بھی ان کی تحریر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
وہ ایک ایسی دنیا کے نمایندہ تھے جو آج معدوم ہو رہی ہے جہاں علم ادب سے جُڑا ہوتا تھا اور قلم ضمیر سے۔عبدالقادر حسن چلے گئے لیکن ان کا لہجہ آج بھی اُن کے جملوں میں زندہ ہے۔ وہ لہجہ جس میں ایک دیہاتی کی معصومیت، ایک عالم کی گہرائی اور ایک صوفی کی خامشی بولتی تھی۔ ان کا فراق محض ایک صحافی کی موت نہیں بلکہ ایک تہذیب کے قافلے کا توقف ہے۔