جنگ کی صلیب پر رکھا ہوا یوکرین

جنگ کے نقشے سفارتی مسودے عالمی طاقتوں کی شرائط یہ سب سیاسی لغت کا حصہ ہیں


زاہدہ حنا November 30, 2025

دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک اور تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ خون ،آنسو اور ماؤں کی ہچکیوں سے بھری ہوئی تاریخ۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ دو ملکوں کا تنازعہ نہیں رہی، یہ سرمایہ دار طاقتوں کے مفادات، اسلحہ ساز کمپنیوں کی بھوک اور عالمی سیاست کے بے رحم کھیل کی بھٹی میں دہکتی وہ آگ ہے جس کی لپٹیں بچوں کے جھلسے ہوئے وجود تک پہنچ چکی ہیں۔

ایسے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی جارحانہ سفارت کاری جو خود ان کی صدارت کا سب سے بڑا امتحان بنتی جا رہی ہے۔ دنیا کے سامنے ایک بار پھر اس سوال کو کھڑا کرتی ہے کہ آخر امن کس کی ترجیح ہے اور جنگ کس کا کاروبار۔

ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو 27 نومبر کی ایک سخت ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ 28 نکاتی امن فارمولا قبول کریں۔ یہ فارمولا میامی کے ایک پرتعیش کمرے میں اسٹیو وٹکوف اور کریملن کے قریبی کیریل دمترییف نے تیارکیا۔

ایک ایسا مسودہ جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ زدہ یوکرین کے مستقبل پر قلم امریکی ہاتھ نہیں بلکہ ماسکو کی انگلیاں چلا رہی ہوں۔ اس تجویز میں یوکرین سے نہ صرف متنازع علاقوں بلکہ اضافی زمین روس کو دینے کا مطالبہ شامل ہے۔

اس کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت پر قدغن لگانے، نیٹو سے فاصلہ رکھنے اور روسی جنگی جرائم پر کارروائی روکنے جیسی سفارتی ناکہ بندی بھی مسلط کی گئی ہے۔ بدلے میں کیا ہے؟ صرف مبہم دھند میں لپٹی امریکی سیکیورٹی ضمانتیں جن کا کوئی ٹھوس ڈھانچہ نہیں کوئی واضح لائحہ عمل نہیں۔

یوکرینی صدر اس تجویز کو مکمل طور پر رد کرنے کے بجائے اسے تاریخ کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ میں تھکے ہوئے لوگ امن کا لفظ سن کر چونکتے ضرور ہیں مگر جب امن کی قیمت ان کی زمین، ان کی خود مختاری اور ان کی نسلوں کا مستقبل ہو تو فیصلہ کرنا آسان نہیں رہتا۔ یوکرین کی عوام کسی بھی اضافی زمین کے چھوڑنے پر تیار نہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ محض آغاز ہوگا انجام نہیں۔

زیلنسکی نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ اخلاقی اور قومی سطح پر بھی ایک خوفناک موڑ پر کھڑے ہیں، اگر وہ یہ فارمولا قبول کرتے ہیں تو تاریخ انھیں شاید کبھی معاف نہ کرے اور اگر نہیں کرتے تو جنگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ یہ وہی لمحہ ہے جسے اقوام کا اجتماعی ضمیر آزمائش کہتا ہے۔


یورپی رہنما اس منصوبے میں سنگین خامیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ فارمولا مستقبل کے روسی حملوں کا دروازہ کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ نیٹو اتحاد کے لیے بھی یہ آزمائش ہے کیونکہ اگر ٹرمپ کی یہ کوشش ناکام ہوئی تو یورپی اعتماد مزید ڈگمگائے گا اور وہ بین الاقوامی اتحاد جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک حد تک استحکام دیا مزید بکھرنے لگے گا۔

ٹرمپ کا ماننا ہے کہ ان کی ذاتی کیمسٹری پوتن کو منوا لے گی مگر تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی بھی آمر سے دوستی کر کے کمزور ملکوں کو امن نہیں ملا، صرف وقتی خاموشی ملی ہے جو ایک اور دھماکے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ پوتن بار بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ یوکرین کی مکمل کمزوری کو ہی روس کا تزویراتی مقصد سمجھتے ہیں۔

جنگ کے نقشے سفارتی مسودے عالمی طاقتوں کی شرائط یہ سب سیاسی لغت کا حصہ ہیں، مگر ان نقشوں میں وہ چہرے نہیں دکھائے جاتے جنھوں نے ہمیشہ سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے یعنی بچے۔ یوکرین کی گلیاں کئی برسوں سے ملبہ بارود اور ٹوٹے کھلونوں سے بھری ہیں۔

سیکڑوں نہیں، ہزاروں بچے اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ کچھ بہرے ہوگئے، کچھ بینائی کھو بیٹھے، کچھ اپنے والدین اور کچھ اپنی ایک چھوٹی سی اناٹومی جس میں زندگی کبھی پھر پوری طرح لوٹ کر نہیں آئے گی۔

جنگ کسی ملک کے خلاف نہیں بچوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اسپتالوں کے بستروں پر پڑے وہ ننھے جسم دنیا کی بڑی طاقتوں سے سوال کرتے ہیں کہ آخر یہ جنگ کس کی ہے؟ وہ اپنی ماؤں کی گودوں میں یتیمی کا خوف لے کر سو جاتے ہیں جب کہ دنیا کے دارالحکومتوں میں طاقتور میزوں پر بیٹھے لوگ نقشوں کی لکیروں میں امن تلاش کرتے ہیں، زندگی نہیں۔

جینیوا میں جاری مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنگ ختم کرنے کے لیے دنیا بے چین ہے مگر ہر ملک امن اپنی شرائط کے ساتھ چاہتا ہے۔

کوئی بھی فریق بچوں کے نام پر معصوم زندگیوں کے نام پر اپنے مفادات کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 27 نومبر کی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے مگر امن ابھی بھی ایک دور کی صدا لگتا ہے۔

ہم کسی کے ساتھ بھی نہیں، نہ روس کے، نہ یوکرین کے، نہ امریکا کے۔ ہم صرف اور صرف انسانیت کے ساتھ ہیں۔ دنیا کا ہر ترقی پسند ہر بایاں ذہن رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ جنگیں کبھی عوام کے فائدے میں نہیں ہوتیں۔

یہ حکمرانوں کے کھیل ہیں، سرمایہ دار طاقتوں کی کمائی ہے اور غریبوں کی موت کے پروانے۔امن کا مطلب کسی طاقتور کے ہاتھوں کمزور کی شکست نہیں۔ امن کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ماں بچے کا کفن نہ خریدے، کوئی باپ سرحد پر اپنے لختِ جگر کا ٹکڑا نہ ڈھونڈتا پھرے، کوئی بچہ خوف کے سائے میں جوان نہ ہو۔

ٹرمپ کی سفارت کاری ہو، پوتن کی طاقت ہو یا زیلنسکی کی مزاحمت یہ سب اپنی جگہ۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا یہ تسلیم کرے کہ جنگیں جیتنے کے لیے نہیں، ختم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔

اور کسی بھی فارمولا میں اگر بچوں کی زندگیوں کا ذکر نہ ہو، تو وہ فارمولا جنگ کا نیا باب ہے امن کا نہیں۔دنیا کو اس جنگ میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس جنگ کو ختم کرنے میں ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ آخر میں نہ زمین جیتتی ہے نہ سرحدیں۔

جیتتے یا ہارتے صرف انسان ہیں۔ وقت گزر رہا ہے۔ فیصلہ باقی ہے لیکن انسانیت کا سوال وہیں کھڑا ہے، کیا ہم ایک اور نسل کو جنگ کے حوالے کریں گے۔

مقبول خبریں