زمانہ طالب علمی سے ہی میرا یہ ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ ہمارے یہاں طلبا کی بڑی تعداد اپنے پیشے (کیریئر) کے انتخاب کے وقت سائنس اور کامرس کے شعبے کو اولین حیثیت دیتی ہے۔
ہمارے طالب علم کے ذہن میں شعوری اور لاشعوری طور پر یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ پرکشش روزگار اور خوشحال زندگی کا حصول سائنس اور ٹیکنیکل کی تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہے۔ بیشتر طلبا یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم آرٹ کے شعبے میں جائے گا یا سماجی علوم پڑھے گا تو وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا، اسے کہیں نوکری نہیں ملے گی، بے روزگاری اس کا مقدر بن جائے گی، پرکشش روزگار اور مادی آسائش اور خوشحالی زندگی کا حصول سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر طالب علم نہ صرف آرٹ کی تعلیم کو حقارت سے دیکھتے ہیں بلکہ اس کے انتخاب کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر طالب علم سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کے حصول کی دوڑ میں لگا ہوا ہے جو اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ بے دلی کے ساتھ آرٹس کے شعبے کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان کی ان مضامین سے عدم دلچسپی برقرار رہتی ہے، پھر حالات کا دھارا انھیں جس سمت لے جائے یہ بہتے چلے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ میری ذاتی رائے میں اس کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ایک صدی سے زائد عرصے سے پوری دنیا میں اپنی پوری قوت کے ساتھ رائج ہے، دنیا مکمل طور پر اس نظام کے زیر اثر ہے۔ یہ صرف ایک معاشی نظام ہی نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ حیات ہے جو اپنے اندر مادہ پرستی اور افادیت پرستی کا پہلو لیے ہوئے ہے اور یہ اسی فلسفے کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے زیر اثر ہو کر دولت کا حصول اور مادی خوشحالی انسان کا مقصد حیات بن جاتا ہے اور وہ ہمہ وقت اس کے حصول میں مصروف عمل رہتا ہے۔
اس سرمایہ دارانہ نظام نے ہماری زندگی کے تمام شعبوں کو متاثرکیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس فکر سے ہمارا تعلیمی نظام کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں سماجی علوم کو سطحی اور ان علوم کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے جو مادی فوائد کے حوالے سے اہم تصورکیے جاتے ہیں۔ اس طرح تعلیم کو مادی پیمانے میں ناپا جاتا ہے۔
خالص سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کے موضوعات مادی فوائد کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے طالب علم سماجی علوم کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کے موضوعات کو ہی اولین ترجیح دیتے ہیں اور ان علوم کا حصول ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے جس سے سرمایہ داری نظام کو مزید فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
زندگی محدود اور علم لامحدود ہے، ہر علم کا حصول ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ تصور عام ہوا کہ جو بھی علم حاصل کیا جائے بھرپور حاصل کیا جائے۔ اس تصور نے اسپیشلائزیشن کے تصور کو جنم دیا، اس تصور کے نتیجے میں ہمارا تعلیمی نظام ایک طرف علمی اور فکری یکجہتی سے محروم ہوا، دوسری طرف تمام علوم ایک دوسرے سے لاتعلق ہو گئے۔ اس فکر کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں جن کا کام طالب علموں کی علمی اور فکری تربیت کرنا تھا وہ ایک خاص یعنی کسی خاص علم کا ماہر آدمی تیار کرنے کا کارخانہ بن گئے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کوئی بھی تعلیمی نظام سماجی علوم کی تدریس کے بغیر اچھا انسان پیدا نہیں کر سکتا۔ اپنے تعلیمی نظام میں سماجی علوم کو نظراندازکرنے کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان مادی آسائش کے باوجود بے سکون ہے وہ جذبات اور احساسات سے عاری اخلاقی لحاظ سے پست، جمالیاتی ذوق اور سماجی شعور سے محروم ہے۔ ہمارے طالب علموں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ سماجی علوم ہی ہیں جس کے ذریعے انسان کی ذہنی، قلبی، نفسانی، فکری صلاحیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ علوم انسان کو درپیش سماجی، معاشی، سیاسی اور مذہبی مسائل کا گہرا ادراک پیدا کرتے ہیں اور ان کے حل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
سماجی علوم کا بنیادی تعلق سماج اور سماج کے افراد کے باہمی تعلق سے ہے۔ سماجی علوم کے ذریعے معاشرے اور اس کے معاشرتی رویوں اور سرگرمیوں کو منظم طریقے سے سمجھا جاتا ہے، اس کا مرکزی خیال معاشروں کا مطالعہ ہے، اس میں افراد کے مابین تعلقات میں ہم آہنگی اور تضادات کو سمجھنے اور ان کے حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سماجی علوم دراصل کسی معاشرے کی ساخت، رہن سہن، انداز فکر کی روایات کا مطالعہ اور دیگر سماجی حقائق کی دریافت اور تشریح کا نام ہے۔
سماجی علوم کے قوانین سائنسی قوانین کی طرح نہیں ہوتے بلکہ یہ مقاصد، نظریات، جغرافیائی، سیاسی اور مذہبی عوامل کے تابع ہوتے ہیں اس لیے سماج کو سمجھنے کے لیے ان تمام عوامل کا مطالعہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نفسیات کے ذریعے ہمیں انسانی رویے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے مذہب ہمیں فکری انتشار سے محفوظ کرکے ہماری زندگی کو معنی عطا کرتا ہے۔ ادب احساس کی قوت پیدا کرکے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں زندگی گزارنے کا شعور اور سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔
فنون لطیفہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں یہ خوبصورت خیالات ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں فلسفہ ہمیں مختلف نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ منطق کے نتیجے میں دلیل کا کلچر فروغ پاتا ہے اس کے نتیجے میں ایک متوازن اور اعتدال پر مبنی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
عمرانیات کے مطالعے کا نسلی، طبقاتی بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم کو باریک بینی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، اس کے ذریعے ہمیں سماج اور سماج میں جڑے ہوئے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ہم اس کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نے اپنے سفرکا آغاز کہاں سے کیا اور اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم تاریخ کے اتار چڑھاؤ کے واقعات کی مدد سے بحرانوں کا تجزیہ کر کے ان کے حل میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سیاست ہمیں بتاتی ہے کہ معاشرے کو کس طرح ضابطے میں لایا جاتا ہے، معاشیات معاشی سرگرمیوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
سماجی علوم کی اس افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ذی شعور ان علوم کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ یاد رکھیے سائنس اور آرٹس انسانی رویے اور جذبات کا اظہار ہے خالص سائنس اگر مادیت ہے تو سماجی علوم اس کی روح ہیں۔ روح سے خالی معاشرہ روبوٹ تو پیدا کر سکتا ہے انسان نہیں۔ اس لیے تمام علوم بالخصوص سائنس اور آرٹس دونوں علوم کو ایک وحدت کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اس صورت میں ہی ہم سائنس اور سماجی دونوں علوم کو بہتر طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔