پندرہ دسمبر کی رات کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں زلزلے جھٹکے محسوس کیے گئے، یوں تو پہلے بھی کئی مرتبہ اس شہر میں زلزلے کے جھٹکے آتے رہے ہیں لیکن بطور ایک باشعور شہری راقم کا خیال ہے کہ ان جھٹکوں میں ہمارے لیے ایک پیغام ہے کہ جتنی جلد ہوسکے ہم اپنے احتیاطی اقدامات کرلیں۔ مذہبی اعتبار سے تو ہمیں ہر وقت ہی اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہیے اور توبہ کرنا چاہیے ،کیونکہ ہمارا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے کہ ہمارے شہر کا نظام اور انفرا اسٹرکچر اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ زلزلے جیسی کوئی آفت آگئی تو معاملات سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی شہر سے متعلق بہت سے ایسے اقدامات اور پالیسیاں سامنے آئی ہیں جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ مثلاً ایک اچھی پالیسی یہ دیکھنے میں آئی کہ شہر کے وسطی علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والے پورشن کی ڈاکومنٹیشن پر سختی سے نظر رکھی گئی اور رشوت کے عیوض پورشن کی ڈاکومنٹیشن تقریباً بند ہی کردی گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر قانونی طور پر شہر میں 60 اور 120 جیسے سائز کے پلاٹوں پر پورشن بناکر جس طرح شہر کا نقشہ ہی بدلا جا رہا تھا اور جس سے شہر کے مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا تھا ،وہ سلسلہ رک گیا۔ جس کا دائرہ پورے کراچی شہر تک وسیع ہونا چاہیے، صرف ضلع وسطی تک نہیں کیونکہ یہ پورے شہر کی ضرورت ہے۔
پوش اور کاروباری علاقوں میں تو چھوٹے سائز کے پلاٹوں پر اور رہائشی مکانات کو توڑ کر بلند و بالا عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات محض آگ بجھانے کے لیے فائر ٹینڈر کو پانی تک دستیاب نہیں ہوتا۔ زیادہ دور کی بات نہیں جب اسلام آباد میں ایک کثیر المنزلہ اپارٹمنٹ زمین بوس ہوگیا تو ملبے کے نیچے دبے لوگوں کو نکالنے کے لیے اسلام آباد جیسے دارالخلافہ میں مشینری تک دستیاب نہیں تھی، نہ ہی ماہرین دستیاب تھا اور پھر ہمیں ایک یورپی ملک سے امدادی سامان اور ٹیم کو بلانا پڑا جس نے آکر امدادی کام کیا اور کچھ لوگوں کو زندہ بھی نکالا۔ اسلام آباد کے مقابلے میں کراچی جیسے شہر میں امدادی اداروں کی کیا حالت ہوگی ، اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔
اس وقت شہر کراچی ایک ایسی گنجان آبادی میں تبدیل ہو چکا ہے کہ جہاں صرف بڑے پلاٹوں پر ہی نہیں، نہایت چھوٹے پلاٹوں پر بھی کئی کئی منزلہ تعمیرات ہوچکی ہیں۔ یہ قانونی بھی ہیں اور انتہائی پرانی ہونے کے سبب اب خستہ حال ہو چکی ہیں اور بہت سی تو اس قدر خستہ حال ہیں کہ خود بہ خود زمین بوس ہو رہی ہیں۔ اس قسم کی پرانی تعمیرات انسانی زندگیوں کے لیے انتہائی خطر ناک ہو چکی ہیں، لیکن لوگ ان میں رہائش پذیر ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی سخت خطرے میں ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی رہائش گاہ کسی وقت بھی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے لیکن لوگوں کی مجبوری ہے کہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی متبادل رہائش وغیرہ نہیں ہے۔ اس شہر میں ذاتی رہائش کے لیے زمین خریدنا اچھے اچھوں کے بس میں نہیں ہے۔
بڑھتی مہنگائی اور زمین کی تیزی سے بڑھتی قیمتوں کے سبب اب مڈل کلاس لوگوں کے اختیار میں بھی نہیں رہا کہ وہ کوئی پلاٹ یا مکان خرید لیں۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ جس سے شہر کی بہت ساری آبادی خطرے میں اپنی زندگی گزار رہی ہے اور یہ صرف چھوٹی عمارتیں نہیں ہیں بلکہ بعض تو ایسے بڑے بڑے پروجیکٹ ہیں کہ جب وہ تیار ہوئے تھے تو بڑے خوبصورت اور مضبوط فلیٹس کی شکل میں تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان سب کا سروے کرے اور دیکھے کہ کہاں کہاں شہر میں ایسی چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں جو کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتی ہیںاور باقاعدہ سروے کے بعد ان سے متعلق منظم منصوبہ بندی کریں۔
ماضی میں پی پی کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے لیاری میں بھی کئی عمارتیں گر چکی ہیں جب کہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی حادثات ہوئے ہیں جس کے سبب قیمتی جانے ضایع ہو گئی ہیں اور ملبے میں دبے لوگوں کو نہیں نکالا جا سکا۔ کراچی شہر میں زلزلے کے جھٹکے وقفے وقفے سے آتے رہتے ہیں ،لہٰذا اگر خدانخواستہ کسی وقت زلزلے کی شدت زیادہ ہو گئی تو بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا ہے جس سے نمٹنا موجودہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ، کیونکہ قدرتی آفات و حادثات سے نمٹنے والے ہمارے سرکاری ادارے مشینری تک نہیں رکھتے۔ لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ صوبائی حکومت اس اہم مسئلے پر بھی اپنی پالیسی فوراً سے بیشتر بنائے اور ایسی عمارتوں کو جن کے گرنے کا زیادہ خدشہ ہے پہلے مرحلے میں خالی کروائے اور ان کے مکینوں کو رہائش کے لیے متبادل جگہ فراہم کرے۔
یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کے لیے یہ سارا بندوبست کرنا بھی آسان نہیں ہوگا لہٰذا راقم کی ایک تجویز یہ ہے کہ جو بلڈرز پرانی عمارتوں کو دوبارہ سے تعمیر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں ان سے بات کی جائے اور خستہ حال عمارتوں کو ختم کر کے بلڈر سے دوبارہ تعمیر کروا کر مالکان کو فراہم کی جائے اور اس میں گراؤنڈ فلور پہ دکانیں بنا کر بلڈرز کو مفت دی جائیں۔ اس طرح سے حکومت کا خرچہ نہیں ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائیگا۔
اسی حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ شہر میں اس قدر تنگ راستے ہیں کہ ایمبولنس سروس اور امدادی کارروائیوں کے لیے مشینری حادثے کی جگہ تک نہیں پہنچ سکتی، جس کے سبب حادثے کے بعد امدادی کارروائیاں کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ تجاوزات کو ختم کرنے کے ساتھ یہ دیکھیے کہ کہاں کہاں راستے تنگ ہیں ایسے تمام راستوں کو کلیئر کروایا جائے اور یہاں جو بھی تجاوزات ہیں، ان کا ترجیح کی بنیاد پر خاتمہ کیا جائے تاکہ جب کبھی بھی ایمرجنسی میں امدادی کارروائی کی ضرورت پڑے تو مشکلات پیش نہ آئیں۔ زلزلہ ہو یا کوئی اور حادثہ، اچانک ہی سامنے آتا ہے، کسی کو سوچنے کی بھی مہلت نہیں ملتی ، لہٰذا صوبائی حکومت کو چاہیے کہ کسی بڑے حادثے سے قبل ہی بندوبست کرے اور اس ضمن میں فوری طور پر پالیسی بنائے تاکہ لوگوں کی قیمتی جانوں کو حادثات کی نظر ہونے سے بچایا جائے۔