دپیش دیوندرن نے اونچا شاٹ کھیلا، گیند فضا میں بلند ہوئی اور احمد حسین نے کیچ تھام لیا، اسی کے ساتھ پاکستان انڈر 19 ایشیا کپ کا چیمپئن بن گیا،یہ کوئی معمولی فتح نہ تھی، فائنل میں بھارت جیسے حریف کو 191 رنز سے ہرانا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
ایک ہفتے قبل اسی ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم نے گرین شرٹس کو 90 رنز سے شکست دی تھی، فائنل سے قبل بھی ایک انجانا سا خوف لاحق تھا کہ نجانے کارکردگی کیسی رہے۔
البتہ کھلاڑی تو کسی اور ہی موڈ میں تھے، انھوں نے حریف کی ایسی پٹائی لگائی جسے وہ برسوں یاد رکھیں گے، سمیر منہاس ایسے چھکے لگا رہے تھے جیسے کوئی منجھا ہوا بیٹر کھیل رہا ہو، ذہن میں کوئی خوف نہیں کہ بھارت سے میچ ہے۔
بس یہی بات سوچی کہ آج ٹیم کو فتح دلانی ہے،172 رنز کی اننگز جس میں 17 چوکے اور9 چھکے شامل تھے کہاں روز روز دیکھنے کو ملتی ہے، چہرے پر بلا کا اعتماد، کلائی میں زبردست قوت 19 برس کی عمر میں ایسا ہیں تو آگے وہ کیا کیا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ٹیم کی بولنگ بھی بہت اچھی رہی، علی رضا کا ٹیلنٹ پی سی بی تھنک ٹینک کو بھا چکا اور وہ انھیں مستقبل کا سپراسٹار قرار دے رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان نوجوان کرکٹرز کا کس طرح خیال رکھا جاتا ہے کہ ٹیلنٹ ضائع نہ ہو اور یہ بعد میں قومی ٹیم کے بھی کام آئیں، آپ ماضی کے کئی بڑے سپراسٹارز کو دیکھ لیں سب انڈر 19 کرکٹ سے ہی ابھرے۔
اس ٹورنامنٹ سے بھی سمیر منہاس اور احمد حسین جیسے بیٹرز جبکہ عبدالسبحان اور محمد صیام جیسے بولرز سامنے آئے ہیں، اب ورلڈکپ بھی آنے والے ہے پاکستانی ٹیم کو اچھا پلیٹ فارم مل گیا۔
امید یہی ہے کہ اس کارکردگی کو برقرار رکھا جائے گا، پاکستانی لٹل اسٹارز چمک اٹھے ہیں، حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ جونیئر لیول کی ٹیمیں عمدہ پرفارم کر رہی ہیں، ایمرجنگ کے بعد اب انڈر 19 کرکٹرز نے بھی دھاک بٹھا دی۔
سینئر ٹیم کو بھی اب بھارت سے نہ جیتنے کا جمود ختم کرنا چاہیے، بچوں سے سبق سیکھیں جو کسی لمحے دباؤ کا شکار نظر نہ آئے، حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فائٹ کی،اگر کسی نے بدتمیزی کی تو اسے جواب بھی دیا۔
ایک بیٹر نے تن تنہا کھیل کا نقشہ پلٹ دیا، بدقسمتی سے سینئر سائیڈ میں ایسا نظر نہیں آتا، کھلاڑی انجانے خوف میں مبتلا لگتے ہیں جس کی وجہ سے بھارت کیخلاف متواتر شکستیں مل رہی ہیں، شاید اب ورلڈکپ میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔
پی سی بی کو ایک نہیں نجانے کتنے بار ماضی کے ’’سپراسٹارز‘‘ کی جانب سے یہ جواب سننے کو ملا ہوگا کہ ’’قومی ٹیم کی کوچنگ کیلیے میں بالکل تیار ہوں لیکن انڈر 19 یا کسی جونیئر سائیڈ کے ساتھ کام کیوں کروں، وہاں اتنا پیسہ ہے نہ ایکسپوڑر‘‘ اسی لیے جونیئر ٹیموں کے ساتھ زیادہ تر وقت غیرمعروف نام ہی منسلک رہتے ہیں۔
بھارت میں چند برس قبل راہول ڈریوڈ جیسے سابق کرکٹرز جب انڈر 19 اور اے ٹیم کے ساتھ جڑے تو نہ صرف مثبت نتائج دیے بلکہ نیا ٹیلنٹ بھی سامنے لائے، اب پاکستان میں سرفراز احمد نے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔
انھیں پی سی بی نے مینٹور و منیجر کی ذمہ داری سونپی اور نتائج سب کے سامنے ہیں، چند روز قبل دبئی میں موجودگی کے دوران میں نے خود دیکھا کہ سرفراز کس طرح نوجوان کرکٹرز کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئے تھے۔
وہ نہ صرف کھیل بلکہ ان کے ذاتی مسائل بھی حل کراتے نظر آئے، اسی لیے سب کے ’’سیفی بھائی‘‘ بن گئے، سرفراز خود اس دور سے گذرے ہیں، ان کی کپتانی میں پاکستان نے انڈر 19 ورلڈکپ جیتا تھا۔
اب مینٹور کی حیثیت سے وہ ٹیم کے کام آئے، شکر ہے ملک میں چند ایسے سابق کھلاڑی موجود ہیں جو پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ دل سے کھیل کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے ایک صاحب کا میسیج پڑھ کر بہت ہنسی آئی کہ ’’سابق کرکٹرز تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ ختم ہو چکا تو پھر انڈر 19ٹیم بھارت کو اتنے بڑے مارجن سے ہرا کر کیسے چیمپئن بن گئی؟‘‘
دراصل کرکٹ ہم پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے، یہاں کا ہر بچہ پیدائشی کرکٹر ہوتا ہے، بات موقع ملنے کی ہے، آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ فوڈ ڈیلیوری رائیڈر یا کوئی اور شخص اچانک اپنی موٹر سائیکل روک کر گلی میں کرکٹ کھیلتے بچوں سے کہتا ہے کہ’’ایک گیند مجھے بھی کھیلنے دو‘‘
یہ بیچارے وہ لوگ ہیں جو ذریعہ معاش کے چکر میں اپنے شوق سے دور ہو گئے، ہمارے یہاں ہر گلی میں کرکٹ کا ٹیلنٹ موجود ہے، بس ان کی صلاحیتیں نکھار کر چانس دینے کی ضرورت ہے۔
حالیہ دنوں میں کئی سابق کرکٹرز اپنے بچوں کو پروموٹ کرنے میں لگے ہیں، مجھے یہی خدشہ تھا کہ کہیں انھیں فاسٹ ٹریک میں لانے کیلیے غریب باصلاحیت کھلاڑیوں کی حق تلفی نہ کی جائے جیسے ماضی میں انضمام الحق نے امام الحق کی وجہ سے کی تھی۔
البتہ شکر ہے عاقب جاوید و دیگر سلیکٹرز نے ایسا نہیں کیا، اگر سلیکشن میرٹ پر ہو تو نتائج بھی مثبت ہی سامنے آتے ہیں، ساری بات نیت کی ہے۔
محسن نقوی بہترین انداز میں پی سی بی کے معاملات چلا رہے ہیں جس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں، جونیئر کرکٹرز کو احمد شہزاد اور عمر اکمل کی ویڈیوز بھی دکھانی چاہیئں ، وہ دونوں بھی بہت باصلاحیت تھے لیکن فوکس ہٹنے کی وجہ سے کھیل سے دور ہو گئے۔
انڈر 19 کرکٹ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے، یہاں سے شاہینز پھر سینئر ٹیم کا راستہ کھلے گا، اپنی منزل پر نظر رکھتے ہوئے توجہ کا مرکز صرف کرکٹ پر رکھیں۔
ہر سال انڈر 19 ورلڈکپ ہوتا ہے جس میں کئی سو کھلاڑی حصہ لیتے ہیں لیکن چند ہی کوہلی یا سرفراز جیسے اسٹارز بن پاتے ہیں،اب آپ کو ان جیسا بننا ہے یا بھولی بسری یاد بننے والے پلیئرز میں شامل ہونا ہے فیصلہ اپنے ہاتھوں میں ہے۔
اس فتح نے قوم کو ایک بار پھر خوشیاں فراہم کی ہیں، دیار غیر میں قومی پرچم بلند کرنے پر ویلڈن ٹیم پاکستان۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)