گزشتہ دنوں بھارتی ریاست بِہار میں ایک سرکاری تقریب کی وڈیو وائرل ہوئی جس نے صرف بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس پر بھارت سمیت پوری دنیا کے مسلمان اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں۔
اس وڈیو نے ایک بار پھر بھارت کے چہرے سے سیکولرازم کا نقاب نوچ ڈالا۔ 15 دسمبر 2025کو بھارتی ریاست بِہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ایک سرکاری تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ بِہار نتیش کمار تھے۔ اس تقریب میں ڈاکٹروں کی نئی تقرریوں کے سرٹیفکیٹ تقسیم ہورہے تھے۔ وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار ڈاکٹروں کو ان کے تقرر نامے تھما رہے تھے، اسی دوران حجاب پہنے ہوئے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر نصرت پروین صاحبہ اپنا تقرر نامہ وصول کرنے کے لیے اسٹیج پر پہنچی تو وزیراعلیٰ نتیش کمار نے تقرر نامہ دیتے ہوئے مسلمان خاتون ڈاکٹر کے چہرے پر موجود نقاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلے کہا، یہ کیا ہے؟ اور پھر ان کا نقاب خود کھینچ ڈالا جس سے ایک باپردہ مسلمان خاتون بھونچکا اور خوفزدہ ہوگئیں۔ غیرت مسلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون ڈاکٹر نے احتجاجاً سرکاری نوکری کا تقرر نامہ پھاڑ کر سرکاری نوکری کرنے سے انکار کر دیا۔
وزیراعلیٰ بِہار نتیش کمار نے دراصل ہندوستان کے چہرے سے سیکولرازم کا نقاب نوچ ڈالا جو بھارت کے مکروہ چہرے کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں اقلیتیں خصوصاً مسلمان مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب سے بھارت کی عنان اقتدار بی جے پی کے ذریعے گجرات کے قصاب نریندرا مودی (سرینڈر مودی) کے ہاتھ میں آئی ہے، اس وقت سے بھارت میں موجود شیوسینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس جیسی انتہاپسند اور ہندوتوا نظریے کی حامل دہشت گرد جماعتیں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہی ہیں اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف منافرت اور تعصب انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔
فاشسٹ بھارتی حکمران ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوتوا نظریے کی حامل ان انتہا پسند جماعتوں اور ان کے پیروکاروں کے ذریعے مسلمانوں کو صفہ ہستی سے مٹانے کے مذموم منصوبے اور بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی مہم پر عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمان ہیں۔ اسی لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتہا پسند حکمران اور ان کی جماعتیں ہر وہ گھناؤنا کام کررہی ہیں جن سے مسلمانوں کو نقصان ہو یا انھیں اشتعال دلا یا جائے۔ بھارت جو خود کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست کہتا ہے، حقیقت میں اس کا نہ سیکولرازم سے کوئی تعلق ہے اور نہ جمہوریت سے، وہ عملی طور پر ایک متشدد اور مسلم دشمن ہندو ریاست بن چکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں نافذ کی جانے والی بعض ریاستی پالیسیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ خصوصاً گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور شہریت ترمیمی قانون ایسے اقدامات ہیں جنھیں ناقدین مسلمانوں کے لیے بھارت کی سرزمین تنگ کرنے کی منظم کوشش قرار دیتے ہیں۔
یہ پالیسیاں صرف قانونی نوعیت کی نہیں بلکہ ان کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی اثرات بھی انتہائی گہرے ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ بظاہر یہ اقدام ’’جانوروں کے تحفظ‘‘ کے نام پر کیا گیا، مگر حقیقت میں یہ ہندو مذہبی عقیدے گاؤ ماتا کو تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر ہوا ہے، کیونکہ عید الضحٰی کے موقع پر مسلمانوں کی قربانی میں یہ اقدام بہت بڑی روکاٹ ہیں۔ دلتوں اور دیگر اقلیتی برادریوں پر بھی اس کا اثر پڑا ہے جن کا روزگار گوشت، چمڑے اور مویشیوں سے وابستہ تھا۔ اسی طرح 2019میں منظور کیا جانے والا شہریت ترمیمی قانون بھارتی تاریخ کا ایک متنازع ترین قانون ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، عیسائی اور پارسی پناہ گزینوں کو شہریت میں رعایت دی گئی ہے جب کہ ان ممالک کے مسلمانوں کو دانستہ طور پر اس فہرست سے خارج رکھا گیا ہے۔ انتہا پسند ہندو سرکار کی سرپرستی میں اسلام، مسلمانوں اور مساجد پر طرح طرح کے تابر توڑ حملے ہو رہے ہیں۔
مسلمانوں سے ان کا دینی اقدار، تہذیب و ثقافت اور اسلامی تشخص چھیننے کے لیے تمام ہندوانتہا پسند ایک پیج پر ہیں اور وہ مل کر اسلام دشمنی میں ہر حد پار کرتے چلے جارہے ہیں۔ بِہار میں مسلمان خاتون ڈاکٹر کے چہرے سے ریاست کی سب سے بڑی شخصیت کی جانب سے نقاب نوچنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حقیقت میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مسلمان خاتون کے چہرے سے نقاب نہیں نوچا بلکہ نام نہاد سیکولر ملک بھارت کے مکروہ چہرے کواپنے غلیظ ہاتھوں سے ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، چند برس پہلے دنیا کی اس نام نہاد بڑی جمہوریت اور سیکولر بھارت کی ریاست کرناٹک میں باحجاب طالبات کے کلاس رومز میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مسلمان بچیوں کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا تھا اور نقاب نہ اتارنے کی صورت میں انھیں کالج سے نکالنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں جو کہ نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ ہندوتوا کی بدترین مثال بھی تھی۔
ایسے میں ریاست کرناٹک کی بہادر و غیور بیٹی مسکان خان نے تنِ تنہا دہشت گردی کی علامت زعفرانی رومال پہنے ہندو جنونی جتھے کے سامنے اپنے حق کے لیے ببانگ دہل نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی گونج نے پوری امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ مسکان خان نے کلمہ حق بلند کر کے اپنی ہمت و جرآت سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے جویقیناً قابلِ تحسین ہے۔ آج بِہار کی مسلمان بیٹی ڈاکٹر نصرت پروین کے ساتھ بہار کے انتہا پسند ہندو وزیرا علیٰ نے جو مذموم حرکت کی اس کا بہترین جواب سرکاری نوکری کو لات مار کر دے دیا ہے۔ سورۃ النور کی آیت نمبر31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں‘‘۔
صرف بِہار کی نہیں امت مسلمہ کی بہار اور نڈر بیٹی ڈاکٹرنصرت پروین نے اﷲ کے حکم کی پاسداری کا حق ادا کردیا ہے، بھارت کی مسلمان بیٹیاں مسکان خان سے ڈاکٹر نصرت پروین تک کا یہ عمل بھارت کی سرزمین پر بسنے والی ہر مسلمان بچی کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ جس انتہا پسندانہ ماحول میں اسلامی شعار کی حفاظت کررہی ہیں یہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔
جہاں تک بھارت میں جاری تہذیبی جارحیت کوئی وقتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم اور خطرناک رجحان اور مہم ہے جو پورے خطے کے امن اور استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر اس جارحیت کو روکا نہ گیا تو بھارت ہندوتوا نظریات کے حامل انتہا پسند وں کی لگائی ہوئی آگ میں جل کر راکھ ہوجائے گا۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کے اداروں اور انصاف پسند قوتوں کو اس تہذیبی یلغار کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی، کیونکہ تہذیبوں کی بقا جبر نہیں بلکہ احترام اور باہمی رواداری میں مضمر ہے۔