کراچی:
2025 کے آخری ہفتوں کے ساتھ ہی پاکستان کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کے روانگی لاؤنجز میں بڑھتی چہل پہل ایک گہرے قومی رجحان کی واضح علامت بن چکی ہے۔
مالی سختی اور ڈیجیٹل رکاوٹوں سے عبارت اس سال میں پاکستان نے انسانی صلاحیت برآمد کرنے والے ممالک میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ،یہ رجحان اب محض خلیجی ممالک میں اجرت کی تلاش میں جانے والے محنت کشوں تک محدود نہیں رہا۔
بلکہ اعلیٰ قدر کے حامل پیشہ ور افراد، خصوصاً ڈیجیٹل کارکنوں کی مسلسل بیرونِ ملک روانگی ملک کے فکری اور علمی مرکز کو بتدریج کھوکھلا کر رہی ہے۔
ڈیجیٹل خانہ بدوش (Digital Nomad) کے تصور نے پاکستان کی طویل ہجرتی کہانی میں ایک نیا باب جوڑ دیا ہے۔2024–25 کے اعداد و شمار انسانی سرمائے کے شدید اخراج کی عکاسی کرتے ہیں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (BE&OE) کے مطابق 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار 381 پاکستانیوں نے بیرونِ ملک ملازمت کے لیے باضابطہ اندراج کرایا۔
یہ رفتار 2025 میں مزید تیز ہو گئی اور نومبر کے اختتام تک 6 لاکھ 87 ہزار 246 افراد ملک چھوڑ چکے تھے۔2026 میں داخل ہوتے ہوئے، گزشتہ دو برسوں میں مجموعی اخراج 15 لاکھ سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔
تاہم تشویش صرف تعداد کی نہیں بلکہ معیار کی ہے۔نرسوں کی ہجرت جس میں 2011 سے 2024 کے دوران 2,144 فیصد کا تاریخی اضافہ ریکارڈ ہوا تھا، 2025 میں بھی تیزی سے جاری رہی۔
2025 پاکستان کی لیبر ایکسپورٹ ڈائنامکس میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ مجموعی اندراجات بلند رہیں مگر ہجرت کے معیار میں تبدیلی نمایاں تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اعلیٰ درجے کے آئی ٹی ماہرین جیسے کمپیوٹر اینالسٹس اور انجینئرز کی ہجرت 2024 کے مقابلے میں 30 فیصد سے زائد کم ہوئی تاہم اس کے برعکس غیر مرئی مہاجرین یعنی وہ ٹیک پروفیشنلز سامنے آئے جو یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر عالمی کیریئر ممکن نہیں رہا۔
یہ طبقہ کم اجرت کے بجائے ‘‘ڈیجیٹل رگڑ’’ سے فرار اختیار کر رہا ہے۔سائی گلوبل کے سی ای او ڈاکٹر نومان احمد سعید نے دی ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو میں کہامعاشی عدم استحکام، مہنگائی، سیاسی بے یقینی، کمزور حکمرانی، ٹیک کیریئر کے محدود مواقع اور تحقیق و جدت کے کمزور نظام ہنر مند افراد کو بیرونِ ملک جانے پر مجبور کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نومان نے زور دیا کہ حکومت آئی ٹی اور ہنر مند کارکنوں کو اسٹریٹجک اثاثہ تسلیم کرتے ہوئے ٹیکنالوجی، ڈیپ ٹیک اور ڈیجیٹل آر اینڈ ڈی میں واضح کیریئر راستے تشکیل دے۔
ڈیجیٹل عدم استحکام کے معاشی اثرات شدید رہے ہیں۔ ٹاپ 10 وی پی این ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز کے باعث معاشی نقصان میں پاکستان دنیا میں سرفہرست رہا، جہاں نقصان کا تخمینہ 1.62 ارب ڈالر (450 ارب روپے سے زائد) لگایا گیا۔
2025 میں پاکستان کی معاشی استحکام بڑی حد تک اسی اخراج سے جڑ چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق نومبر 2025 میں کارکنوں کی ترسیلاتِ زر 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو سال بہ سال 9.4 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔
تاہم یہ مالی سہارا ایک گہری موقع لاگت (Opportunity Cost) کو چھپاتا ہے۔2025 کے اواخر میں ملک چھوڑنے کی خواہش میں شدت کے ساتھ ریاستی ضابطہ جاتی ردِعمل بھی سخت ہوا۔
17 دسمبر 2025 کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں ایف آئی اے نے بتایا کہ اس سال پاکستانی ہوائی اڈوں سے 66 ہزار 154 مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا، جو 2024 میں 35 ہزار تھا۔
2026 میں داخل ہوتے ہوئے 2025 کا اخراج اس دور کی سب سے نمایاں علامت بن چکا ہے۔
پاکستان ایک ‘‘برین ڈرین اکانومی’’ میں تبدیل ہو رہا ہے جو اپنی بقا اْنہی لوگوں کی برآمد پر رکھے ہوئے ہے جن کی اسے مستقبل تعمیر کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ترسیلاتِ زر وقتی سہارا فراہم کر سکتی ہیں، مگر وہ جدت کے لیے درکار فکری سرمائے کا نعم البدل نہیں بن سکتیں۔