قانون اور انصاف کا کردار

پاکستان عوامی تحریک کے مطابق ان کے کل 22کارکن پولیس کی گولیوں سے جاں بحق ہوچکے ہیں


Zaheer Akhter Bedari August 25, 2014
[email protected]

KARACHI: ایک تازہ اخباری خبر کے مطابق گجرانوالہ کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت 72 افراد کی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 23 اگست کو انھیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ 10 اگست کو یوم شہدا کے موقعے پر سادھوکی، گھکر منڈی اور وزیر آباد میں ہنگاموں کے دوران ان پر پولیس کے اہلکاروں پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ اگر کسی ظلم اور نا انصافی کے خلاف کوئی شخص یا جماعت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو عدلیہ کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ سائل کی داد رسی کرے۔

اس حوالے سے گجرانوالہ کی عدالت کا یہ اقدام قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس کیس کے علاوہ کئی اور کیس بھی جن میں قتل، بغاوت جیسے الزامات شامل ہیں ۔ طاہر القادری کو گرفتار کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن قادری کے گرد کارکنوں کے جم غفیر کو دیکھتے ہوئے پولیس انھیں گرفتار نہیں کر پا رہی ہے، حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ حکومت درخواست کے ساتھ بھاگ رہی ہے کہ وہ اپنے ''غیر آئینی، غیر قانونی'' مطالبات کے حوالے سے حکومت سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہو۔

پاکستان عوامی تحریک کے مطابق ان کے کل 22کارکن پولیس کی گولیوں سے جاں بحق ہوچکے ہیں ۔پاکستان عوامی تحریک ان 22 کارکنوں کے قتل کے خلاف ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے ایف آئی آر درج کرانے کے لیے کوشاں ہے لیکن کوئی تھانہ یہ ایف آئی آر درج کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اس قتل عام کی نہ صرف ایف آئی آر درج کی جائے بلکہ ان ملزموں کو گرفتار بھی کیا جائے جن پر14 کارکنوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے لیکن بوجوہ اب تک نہ ایف آئی آر درج کی گئی نہ ملزمان گرفتار ہوئے جب کہ میڈیا میں اس واردات کا رات دن چرچا ہورہا ہے۔

ہمارے ملک میں پولیس قانون اور انصاف کا جو نظام قائم ہے اس میں قدم قدم پر امتیازات، جانبداری اور نا انصافی کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں حکمران طبقات اور اہل سیاست قانون اور انصاف کی برتری کے دعوے کرتے ہیں اس ملک میں قانون اور انصاف کی کھلم کھلا بے حرمتی کی وجہ کیا ہے؟

قومی سطح پر قانون اور انصاف کی پامالی کی ایک بڑی وجہ ہمارا وہ طبقاتی نظام ہے جس میں اشرافیہ ہر قانون، ہر انصاف سے آزاد ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ اس وڈیرہ شاہی نظام میں انصاف وڈیروں کی جیب میں، قانون ان کے پیروں میں ہوتا ہے۔ پر وڈیرہ اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے اور انتظامیہ اس کے اشارۂ ابرو پر کام کرتی ہے یہ تو وڈیرہ شاہی نظام کی خوبیاں ہیں لیکن چوں کہ ہماری حکومتی ساخت بھی وڈیرہ شاہی پر استوار ہے لہٰذا ہمارا حکمران طبقہ بھی انصاف اور قانون کو اپنی مرضی کا غلام سمجھتا ہے۔ جس کی ایک مثال طاہر القادری شہباز شریف کے وہ کیس ہیں جن میں امتیازی اور جانبدارانہ پہلو نمایاں ہے۔

یہ صورت حال اگرچہ قومی سطح کی صورت حال ہے اور اسے ہم ملک کے نظام کے حوالے سے دیکھتے ہیں لیکن قانون اور انصاف کے اس المیے کا اصل تعلق اس بین الاقوامی سطح پر کیسز کی طرح پھیلے ہوئے نظام سے ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے۔ اس طبقاتی نظام میں ریاست کے نام پر ایک ایسی مشینری کھڑی کی گئی ہے جس کا اصل مقصد اشرافیہ کا تحفظ ہوتا ہے۔

اس مشینری کا خود کار میکنزم اس قدر پر اسرار اور حیرت انگیز ہے کہ اس کی کارکردگی کے اسرار و رموز تک پہنچنا ہر ایک اہل دانش کے بس کی بات نہیں، ہم یہاں اس کے تمام اور اہم پہلوئوں کا جائزہ تو نہیں لے سکتے کہ اس کے لیے درجنوں کتابوں اور ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے، ہم البتہ اس کے قانون اور انصاف والے پہلو کا مختصراً جائزہ پیش کرسکتے ہیں۔

اس غیر منصفانہ استحصالی نظام کے مکروہ چہرے کو چھپانے کے لیے خوبصورت نقاب اس پر چڑھادی گئی ہے اس کا نام ہے ''جمہوریت'' جب بھی جمہوریت کے حسن کا تذکرہ کرتے ہیں تو آئین اور قانون کی بالادستی کی مالا جمہوریت کے گلے میں ضرور ڈالتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مالا جہاں اشرافیہ کے حسن میں اضافہ کرتی ہے وہیں غریب کے گلوں کا پھندا بھی بن جاتی ہے۔

اس نظام زر میں ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے جن میں انسانیت، شرافت، ضمیر، علم و دانش، قلم اور قلم کا قانون اور انصاف دین دھرم سب شامل ہیں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہمارے ملک سمیت ان تمام ملکوں میں جہاں یہ مکروہ نظام قائم ہے خرید و فروخت کا سب سے اہم عنصر دولت ہے۔ قانون اور انصاف کے ادنیٰ کارکن سے لے کر اعلیٰ سطح تک دولت اور اختیار سب سے زیادہ فیصلہ کن طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہی دو عناصر ہمارے اس امتیازی اور غیر منصفانہ نظام میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

قانون اور انصاف کے اس نظام کو حکمران طبقات ایک موثر اور خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جب حکمران طبقات کے سامنے ان کے مفادات ہوتے ہیں تو قانون اور انصاف کو سیاسی انتقام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کی ایک مثال بھٹو کا عدالتی قتل ہے جب سیاسی مفادات کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے تو قانون اور انصاف حکمرانوں کے ہاتھوں کی تلوار بن جاتے ہیں۔

ضیاالحق نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی حفاظت کے لیے کھلے عام قانون اور انصاف کو بھٹو کو دار پر لٹکانے کے لیے استعمال کیا۔ جمہوریت میں برسر اقتدار طبقات نے اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے قانون اور انصاف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات اور زرداری کی طویل جیل حکمران طبقات کے سیاسی اختلافات کا ایک عبرت ناک نمونہ ہے۔

آئین جمہوریت کی سب سے مقدس دستاویز مانا جاتا ہے۔ اس آئین میں جن انسانی حقوق کو مقدس بناکر پیش کیا گیا ہے ان میں زندہ رہنے کا حق بھی شامل ہے۔ زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی ضروری ہوتی ہے لیکن ہمارے آئین کی آنکھوں کے سامنے ہماری آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

بھوک سے تنگ آئے ہوئے غریب انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کررہے ہیں اور آئین قانون اور انصاف وکیلوں کی بحثوں قانون کی کتابوں اور انصاف کے ایوانوں میں بند ہے وہ جب حکمرانوں کے ہاتھوں میں آتا ہے تو بھٹو کو پھانسی پر لٹکاتا ہے، نواز شریف کو 8 سال جلا وطن کردیتا ہے اور پھر اسی نواز کے ہاتھوں میں آتا ہے تو قبائلی انتقام بن جاتا ہے۔

عمران اور طاہر القادری تو قانون اور انصاف کی آری کے نیچے آجائیںگے جب کہ حکمران قانون اور انصاف کی آنکھوں والی لاٹھی سے اس لیے بچے رہیںگے کہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے اور جمہوریت کے باراتی ان کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ میاں برادران پر لگائے جانے والے الزام عمران خان اور قادری سے بہت زیادہ سنگین اور بامعنی ہیں۔

مقبول خبریں