پاک بحریہ کے دوسرے ملجم کلاس جہاز پی این ایس خیبر کی کمیشننگ تقریب استنبول نیول شپ یارڈ، ترکیہ میں منعقد ہوئی۔ جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اس تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف بھی اس موقع پر موجود تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مثالی قرار دیا۔
صدر نے مستقبل میں بھی دفاعی پیداوار کے میدان میں باہمی تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم ایس اسفات، استنبول نیول شپ یارڈ اور پی این ملجم جہازوں کی منصوبہ بندی، ڈیزائن اور تعمیر میں شامل دیگر کمپنیوں کی اپنے کام میں مہارت اور لگن کا اعتراف کیا۔ نیول چیف نے پاکستان اور ترکیہ کے مابین مضبوط دفاعی شراکت داری کو سراہا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاک بحریہ اور ترک بحریہ کے درمیان دو طرفہ روابط نہ صرف دفاعی تعاون کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ یہ ہماری پائیدار اور گہری شراکت داری کے عکاس بھی ہیں۔
تقریب کے اختتام پر ترک صدر نے جہاز کا دورہ کیا، جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور انہوں نے جہاز کے عملے سے ملاقات بھی کی۔
دورے کے دوران ترک صدر اور چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے علاقائی بحری سیکیورٹی صورتحال اور مستقبل میں پاک بحریہ اور ترک بحری افواج کے مشترکہ اقدامات کے مواقع پر بات چیت کی۔پی این ملجم کلاس جہاز جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس پلیٹ فارمز ہیں۔
یہ جہاز جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، ہتھیاروں اور سینسرز سے لیس ہیں پاکستان کے لیے چار ملجم کلاس جہازوں کی تعمیر کا معاہدہ 2018 میں وزارتِ دفاعی پیداوار پاکستان اور ایم ایس اسفات ترکیہ کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت دو جہاز ترکیہ میں اور بقیہ دو پاکستان میں تیار کیے جانے تھے۔
پی این ایس خیبر کی کمیشننگ کے ساتھ ہی ترکیہ میں دونوں جہازوں کی تعمیر کا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے۔
وزیراعظم کی پی این ایس خیبر کی کمیشننگ پر پاک بحریہ، دفاعی ماہرین اور تمام شراکت داروں کو مبارکباد
وزیراعظم نے کہا کہ پی این ایس خیبر کی شمولیت سے پاکستان کا سمندری سرحدوں کے تحفظ مزید مضبوط ہو گا، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی تعاون باہمی اعتماد اور دیرینہ برادرانہ تعلقات کا عکاس ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بحری قوت اور صلاحیت میں اضافہ پاکستان کی معیشت، تجارت اور سمندری راستوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔