سیلاب کی روک تھام اور جدید طریقے
پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت مختلف وجوہات کی بناء پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا انعقاد نہیں کر پارہی۔
مون سون بارشوں نے جموں وکشمیر، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں تباہی مچا دی۔ ستلج اور چناب ابل پڑے، راوی کے پانی سے لاہور متاثر ہوا، آزاد کشمیر میں 30 ہزار اور پنجاب میں تقریباً 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ دریائے سندھ اب سندھ میں تہلکہ مچائے گا۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے وقت تک حکومتِ سندھ کی کارکردگی واضح ہو جائے گی۔ حافظ سعید نے بھارت پر آبی جارحیت اور وزیر دفاع نے غیر متوقع بارشوں کو سیکڑوں افراد کی ہلاکت اور تباہی کا ذمے دار قرار دے دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، کے پی کے اور وسطی پنجاب میں شدید بارشیں ہوئیں۔ پھر دریاؤں میں طغیانی آگئی۔ پنجاب میں بہنے والے دریاؤں چناب، ستلج، راوی اور جہلم کے کناروں کو محفوظ بنانے والے پشتے مسمار کیے گئے اور پل ٹوٹ گئے۔ صرف بھارتی کشمیر میں 200 افراد ہلاک ہوئے اور سری نگر سیلاب میں ڈوب گیا۔ لاہور، سیالکوٹ، ڈسکہ اور گوجرانوالہ وغیرہ میں پانی داخل ہو گیا۔ بارش کے پانی کے ساتھ بھارت میں بارشوں سے جمع ہونے والا پانی بھی پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، یوں بارش اور دریائی طغیانی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مگر ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا، پاکستان اور بھارت میں یوں تو ہر سال تین مہینے مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں مگر ہر دوسرے تیسرے سال دریاؤں میں طغیانی آجاتی ہے۔ بعض اوقات بارشیں کم ہوتی ہیں، یوں دریاؤں میں معمول کی صورتحال رہتی ہے۔
جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو دریاؤں کا پانی تباہی مچاتا ہے۔ موسمیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ عمومی طور پر جس سال زیادہ سردی پڑتی ہے اسی سال پہاڑوں پر زیادہ برف باری ہوتی ہے تواسی سال پہاڑوں پر موجود گلیشیئر زیادہ مقدار میں پگھلتے ہیں۔ اس کے ساتھ مون سون کی بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب علم جغرافیہ پر بہت زیادہ سائنسی تحقیق پر توجہ نہیں دی جاتی تھی تو اس وقت برفباری کی مقدار اور گلیشیئر کے پہاڑوں سے ٹوٹنے اور ان کے پگھلنے کی رفتار کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا۔ مگر جغرافیہ کے علم میں سائنسی تحقیق پر انحصار زیادہ ہونے اور ماحولیات کے مضمون میں جدید مشینوں کے شامل ہونے سے ماہرین کے تجزیوں اور کمپیوٹر کے جدید ترین استعمال کے نتیجے میں موسمی پیشگوئیاں بہت حد تک درست ثابت ہونے لگیں۔ سال کے آخر اور اس سال کے اوائل میں شمالی علاقوں میں برفباری کی مقدار بڑھنے سے اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ آسان ہو گیا تھا کہ مون سون کے مہینے میں دریاؤں میں طغیانی کی سطح کیا ہو گی۔
اس کے ساتھ خطے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بارشوں کی مقدار کا اندازہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات جدید سائنسی تحقیقی طرزِ عمل اختیار کرنے میں ناکام رہا۔ اب کسی بھی ملک کا محکمہ موسمیات کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے ذریعے جدید ممالک کے موسمیات کے محکموں کے نیٹ ورک سے منسلک ہوتا ہے۔ یوں سیٹلائٹ سے بادلوں کی کھینچی گئی تصاویر کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس طرح جدید ممالک بارشوں کے بارے میں درست پیشگوئی کرتے ہیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ محکمہ موسمیات جو وفاق کی نگرانی میں کام کرتا ہے اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہے۔ مگر محکمہ موسمیات کے افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے بارشوں کے بارے میں پیشگی اطلاع دے دی تھی۔
پختونخوا اور پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آبپاشی کے محکموں نے دریاؤں کے پشتوں کی مرمت او ر پانی کی نکاسی کے بنیادی راستوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جدید تعمیراتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے دریاؤں کے کناروں پر تعمیر ہونے والے پشتوں کو اتنا مضبوط بنایا جانا چاہیے تھا کہ پانی کا ریلا انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس کے ساتھ ہی نہروں اور نالوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نہروں سے مٹی نہ نکالنے کی بناء پر یہ نہریں اپنی استعداد کے مطابق کام نہیں کرتیں، پانی کی رفتار میں رکاوٹ ہوتی ہے تو پشتوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ موسمیات کے ماہر سرتاج خان کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی ماحولیات کو تباہ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دریاؤں میں سیلاب آنے کی ایک اہم وجہ پہاڑوں پر درختوں کا کٹاؤ ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ٹمبر مافیا قبائلی علاقوں اور پختون خوا کے پہاڑی علاقوں میں انتہائی مضبوط ہے۔ یہ مافیا جدید مشینوں کے ذریعے درختوں کو کاٹتی ہے، یوں ایکو سسٹم کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پختون خوا کے شہروں پشاور، نوشہرہ اور اطراف کے علاقوں میں سیلاب آنے کی وجہ پشاور راولپنڈی موٹر وے کی تعمیر ہے۔ پشاور موٹر وے کی تعمیر سے دریائے کابل اور دریائے سندھ کے درمیانی علاقے میں پانی کا فطری بہاؤ متاثر ہوا ہے۔ یہ پانی وادئ پشاور اور وادئ سمہ سے ہو کر نوشہرہ اور اٹک کے درمیان دریائے سندھ میں گرتا ہے۔
پھر دنیا کے بڑے ممالک میں جہاں مسلسل سیلاب آتے ہیں سیلابی پانی کو متبادل طریقوں سے محفوظ رکھنے اور انھیں ریزرو وائر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یوں سیلاب کا پانی متبادل راستوں کے ذریعے بڑے بڑے ریزرو وائر اور چھوٹے چھوٹے ڈیموں میں محفوظ ہو جاتا ہے اور جب سال دو سال دریاؤں میں پانی کم ہوتا ہے تو سیلاب کا پانی رحمت ثابت ہوتا ہے۔ لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں پانی گھروں میں جمع ہونے، عمارتوں کے گرنے، بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی معطل ہونے کا براہِ راست تعلق شہروں کے انتظام کے ذمے دار اداروں سے ہے۔ لاہور کے علاقے بیرج کالونی میں رہنے والے ماہرِ تاریخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ شہروں میں بغیر منصوبہ بندی ترقیاتی کاموں کی بناء پر سڑکیں بلند ہو رہی ہیں اور مکانات نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مغلوں کے دور میں لاہور شہر میں پانی کی نکاسی کے لیے نالیوں اور نالوں کا جال بچھایا گیا تھا، یوں بارش کا پانی بہت کم وقت میں سڑکوں اور گلیوں سے کم ہو کر نشیب میں بہنے والے نالوں میں چلا جاتا تھا مگر حکام کی عدم توجہ کی بناء پر یہ نالے بند ہو گئے۔ بہت سے مقامات پر ان نالوں میں مکانات، دکانیں اور پلازہ تعمیر ہو گئے، یوں پانی کی نکاسی کا فطری نظام بند ہو گیا۔ پھر یہ ہوا کہ نئی آباد ہونے والی بستیوں میں پانی کی نکاسی کے فطری اصولوں کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ دنیا کے جدید شہروں میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے اصول کے تحت قائم ہونے والا بلدیاتی نظام شہروں کی ترقی اور شہریت کے جدید اصولوں کے تحت بستیوں کی جدید خطوط پر آبادکاری کا فریضہ انجام دیتا ہے مگر ملک کے تین صوبوں میں منتخب قیادت کی نگرانی میں فرائض انجام دینے والا بلدیاتی نظام موجود نہیں ہے۔
پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت مختلف وجوہات کی بناء پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا انعقاد نہیں کر پارہی۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ میاں شہباز شریف کی واحد شخصیت تمام مسائل کا حل ہے۔ یوں شخصیت پرستی کی بناء پر شہروں کی ترقی کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ پنجاب میں حکومت تعلیم، صحت اور شہریوں کی ترقی کے جامع منصوبوں پر عملدرآمد کے بجائے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کو ترقی کی بنیاد سمجھ رہے ہیں۔ یوں شہروں کی گلیوں اور سڑکوں میں نصب گٹر لائنوں، پرانی نالیوں اور نالوں کی صفائی کی نگرانی کرنے والے عوامی نمایندے موجود نہیں ہیں۔
اس بناء پر بارش میں نکاسی کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابوں کی ذمے داری بھارت پر ڈالنے کا عقلی جواز نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پاکستان عام حالات میں راوی، چناب اور ستلج میں بھارت سے پانی حاصل کرتا ہے تو بارشوں اور سیلابوں میں بھی بھارت سے پانی آئے گا۔ ان ماہرین کا یہ مشورہ ہے کہ دونوں ممالک کی پانی اور بجلی کی وزارتوں کے رابطے زیادہ مضبوط ہونے چاہئیں تا کہ پانی کے بہاؤ کے بارے میں اطلاعات کا فوری تبادلہ ہو سکے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیر میں امدادی سرگرمیوں کے لیے مدد کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کے تعاون سے اس خطے میں قدرتی آفات کا اثر کم ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ تعلیم اور صحت سمیت تمام شعبوں میں ترقی ضروری ہے۔
محض ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ترقی ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔ حکومت اگر عوام کو جمہوریت کے ثمر سے آگاہ کرنا چاہتی ہے تو سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے نقصان کی حقیقی وجوہات کا پتہ چلانے کے لیے اعلیٰ سطح کا خود مختار کمیشن قائم کر کے سیلاب کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ریزرو واٹر اور چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ شہروں میں ترقی کے لیے بلدیاتی انتخابات کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، بلدیاتی اداروں کی منتخب قیادت شہروں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔