ترکی کے قومی راز چوری

ع محمود  اتوار 14 ستمبر 2014
ترکی کی اہم جغرافیائی حیثیت کے باعث دوسری جنگ عظیم دوم سے قبل ہی امریکی و ترک خفیہ ایجنسیوں نے شریک کار بن کر سگنل انٹیلی جنس قائم کر لی تھی۔ فوٹو: فائل

ترکی کی اہم جغرافیائی حیثیت کے باعث دوسری جنگ عظیم دوم سے قبل ہی امریکی و ترک خفیہ ایجنسیوں نے شریک کار بن کر سگنل انٹیلی جنس قائم کر لی تھی۔ فوٹو: فائل

یہ دسمبر 2011ء کی بات ہے جب ترک۔ عراق سرحد پر ایک دلدوز واقعہ پیش آیا۔ بعض لوگوں نے اسے قتل عام جبکہ دوسروں نے حادثہ قرار دیا۔ ہوا یہ کہ رات کے وقت ترک ایف سولہ طیاروں نے ایک قافلے پر حملہ کیا۔ ترک حکومت کو اطلاع ملی تھی کہ یہ قافلہ علیحدگی پسند تنظیم ’’پی کے کے‘‘ (کردستان ورکرز پارٹی) کے دہشت گردوں پر مشتمل ہے۔ حقیقت میں وہ عراقی تیل ترکی لانے والے کرد اسمگلر تھے۔ اس حملے میں 34 افراد مارے گئے۔

ترک حکومت کو اس قافلے کی اطلاع فضا میں محو پرواز ایک امریکی ڈرون نے دی تھی۔ گو یہ خبر غلط ثابت ہوئی اور اس کے بطن سے ایک افسوسناک سانحے نے جنم لیا۔ مگر یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ کرد علیحدگی پسندوں سے لڑائی میں امریکا ترک حکومت کی بھرپور مدد کر رہا ہے لیکن حالیہ ماہ اگست میں مشہور جرمن رسالے’’دیرا شپیگل‘‘ نے یکے بعد دیگرے یہ انکشاف کئے کہ دنیائے مغرب کی تین بڑی طاقتیں… امریکا‘ جرمنی اور برطانیہ ترکی میں سیاست دانوں‘ سرکاری افسروں‘ کاروباریوں اور دیگر اہم شخصیات کی جاسوسی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان انکشافات نے ترکی میں ہلچل پیدا کر دی۔ ترک عوام و خواص یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ درج بالا تینوں طاقتیں ان کی دوست ہیں یا دشمن؟۔ لیکن جب تک ایڈورڈ سنوڈن جیسے باضمیر انسان موجود ہیں‘ شاید آمرانہ حکومتیں وسیع پیمانے پر جاسوسی نہ کرسکیں۔ ترک بھی سنوڈن ہی کے شکر گزار ہیں کہ اسی کی وساطت سے انہیں امریکی‘ برطانوی اور جرمن جاسوسی کا علم ہوا۔دلچسپ بات یہ کہ سنوڈن نے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی‘ این ایس اے(National Security Agency) کے خزینے سے جو دستاویزات چرائی‘ ان سے یہ بھی افشا ہوا کہ جرمنی اور امریکی ایک دوسرے کی جاسوسیاں کرتے پھرتے ہیں۔

جولائی 2014ء میں میڈیا نے انکشاف کیا کہ این ایس اے کے ایجنٹ ٹیلی فون پر جرمن چانسلر‘ انجیلا مرکل کی کالیں ٹیپ کرتے رہے۔ مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے جاسوس جرمن خفیہ ایجنسی‘ بی این ڈی (Bundesnachrichtendienst) میں داخل کر دیئے تھے۔ چنانچہ جرمن حکومت کئی دن تک امریکیوں سے خفا رہی۔لیکن اگلے ہی ماہ جرمن حکومت کا اونٹ پہاڑ تلے آ گیا۔ اب میڈیا نے افشا کیا کہ بی این ڈی بھی اپنے جاسوس امریکی حکومت میں انتہائی اونچی سطح پر داخل کر چکی۔ چنانچہ وہ امریکی وزرائے خارجہ‘ ہلیری کلنٹن اور جان کیری کی ٹیلی فون کالیں ٹیپ کرتے رہے۔

اس انکشاف نے قدرتاً جرمن حکومت کو پسپا کر دیا اور اب وہ اپنی صفائی میں تاویلیں پیش کرنے لگی۔ جرمنی اور امریکا کی سرد جنگ جاری تھی کہ17 اگست کو نیا انکشاف ہوا کہ بی این ڈی ترک حکومت کی جاسوسی کرنے میں مصروف ہے۔

مغربی میڈیا کے مطابق 1976ء میں جرمن چانسلر‘ ہلمٹ شمڈت حکومت نے بی این ڈی کو اجازت دی کہ وہ ترک وزیراعظم ہاؤس اور دفاع‘ خزانہ اور امور خارجہ کی وزارتوں کو نشانہ بنائے۔ خیال ہے، پچھلے 38 برس میں جرمن انٹیلی جنس ایجنسی ترک حکومت کے کئی قومی راز جان چکی ۔

ترک حکومت نے اس انکشاف پر جرمنی سفیر کو طلب کر کے اسے متنبہ کیا کہ جرمنی ترکی میں جاسوسی کی تمام سرگرمیاں فوراً روک دے۔ یہ ہنگامی سرد نہیں ہوا تھا کہ 31 اگست کو ’’دیراشپیگل ‘‘ نے نیا دھماکہ کر دیا… یہ کہ امریکی جرمنوں سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر ترک حکومت کی جاسوسی کر رہے ہیں۔

ترکی کی اہم جغرافیائی حیثیت کے باعث دوسری جنگ عظیم دوم سے قبل ہی امریکی و ترک خفیہ ایجنسیوں نے شریک کار بن کر سیگنیٹ(Sigint) یا سگنل انٹیلی جنس قائم کر لی۔ مدعا یہ تھا کہ روسیوں پر نظر رکھی جا سکے۔دوران سرد جنگ امریکیوں نے ترکی میں مراکز جاسوسی قائم کر لیے تاکہ ’’سویت یونین‘‘ کو قابو کیا جا سکے۔ آج انہی مراکز سے امریکی روس اور جارجیا کی 24گھنٹے نگرانی کرتے ہیں۔ نیز پڑوسی ملک‘ شام بھی این ایس اے کی نگرانی کا مرکز بن چکا ۔بدلے میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ترک حکومت کو پی پی کے رہنماؤں کی سرگرمیوں سے باخبر رکھتی رہیں۔ مثلاً ترکوں کو کرد رہنماؤں کے موبائل نمبر دینا، بیرون ممالک میں ان کے پتے فراہم کرنا اور دیگر معلومات دینا۔ انہی معلومات سے فائدہ اٹھا کر ترک حکومت نے پی پی کے کو بہت نقصان پہنچایا اور اسے کمزور تنظیم بنا ڈالا لیکن اس ظاہری دوستانہ رویے کے پیچھے امریکی ترک حکومت کی جڑیں کاٹنے میں بھی مصروف رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2002ء سے ترک میں اسلام پسند رہنما حکومت کررہے ہیں۔ چناں چہ امریکی حکومت ان رہنمائو کی جاسوسی کرنے سے ان کے عزائم معلوم کرنا چاہتی تھی۔ لہٰذا پچھلے چھ سات برس سے این ایس اے وزیراعظم ہائوس سمیت ’’18‘‘ ترک وزارتوں میں جاسوسی کررہی ہے۔

مئی 2007ء میں امریکی انٹیلی جنس اور ترک انٹیلی جنس اداروں میں ’’معاہدہ دوستی‘‘ انجام پایا۔ مدعا یہ تھا کہ کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ میں ترکوں کو امریکیوں کے جدید ترین جاسوسی آلات تک رسائی مل جائے۔ اسی معاہدے کے ذریعے کمانڈ انٹیلی جنس فیوزن سیل(command intelligence fusion cell)… ایک خفیہ یونٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس یونٹ سے وابستہ ترک اور امریکی ماہرین جاسوسی پی پی کے کی خفیہ و عیاں سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔

صدر اوباما کے دور میں دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین قربت مزید بڑھی۔ حتیٰ کہ این ایس اے نے انقرہ میں اپنا ایک ذیلی دفتر، سپیشل لائزن ایکٹیوٹی ترکی آفس(Special Liaison Activity Turkey  office) قائم کرلیا۔ جنوری 2012ء میں این ایس اے نے ترکوں کو گفتگو ریکارڈ کرنے والا جدید ترین سافٹ ویئر فراہم کیا۔ یہ پروگرام ڈیٹا میں موجود ہر شخص کی ریکارڈ شدہ آواز پہچان کر بتاسکتا ہے کہ موبائل،ٹیلی فون یا سیٹلائٹ فون پہ کون بول رہا ہے۔اس سافٹ ویئر کی مدد سے ترک حکومت نے پی پی کے کے اہم رہنمائوں کے خفیہ ٹھکانے معلوم کیے اور انہیں جا دبوچا۔ امریکیوں نے ترکوں کو یہ پیچیدہ سافٹ ویئر چلانے کی تربیت بھی دی۔

این ایس اے نے دنیا بھر میں رقوم کی ترسیل پر نظر رکھنے کے لیے ’’پیسے کا پیچھا کرو‘‘ (Follow the money) نامی ایک خفیہ یونٹ قائم رکھا ہے۔ اس یونٹ سے بھی ترک حکومت کو یہ اطلاعات دی گئیں کہ مختلف ممالک میں موجود پی پی کے رہنما اپنے لڑاکوں کو کس طرح اور کتنی رقوم بھجواتے ہیں۔ بدلے میں ترک انٹیلی جنس امریکیوں کو روس اور یوکرائن کے متعلق اپنی خفیہ چھان بین سے آگاہ کرتی۔

مگر ترک اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں وسیع پیمانے پر ان کی بھی جاسوسی کررہی ہیں۔ ایڈوریڈ سنوڈن کے ذخیرے میں موجود این ایس اے کی ایک خفیہ دستاویز میں ترکی کا تذکرہ یوں ملتا ہے:

’’ساتھی بھی ٹارگٹ بھی‘‘(partner and target)

یوں امریکی جن ترک سیاست دانوں، فوجی افسروں اور ماہرین انٹیلی جنس ماہرین کو پی کے کے سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کررہے تھے، وہی امریکیوں کا ٹارگٹ بھی بن گئے۔ ترک حکومت کے اعلیٰ دماغوں کی گفتگو سننے اور سرگرمیاں نوٹ کرنے کی خاطر این ایس اے نے استنبول اور انقرہ میں خفیہ ’’سپیشل کولیکشن سروس لسنگ ‘‘(Special Collection Service listening) اسٹیشن قائم کردیئے۔ یہ اسٹیشن عام ٹیلی فون، موبائل، کمپیوٹر اور سیٹلائٹ فون، غرض رابطے کے ہر الیکٹرونک ذریعے کے سگنل پکڑنے والے جدید ترین آلات جاسوسی سے لیس تھے

امریکی حکومت نے ایک ٹاپ سیکرٹ دستاویز بہ عنوان ’’نیشنل انٹیلی جنس پرارٹیز فریم ورک‘‘ (National Intelligence Priorities Framework )تشکیل دے رکھی ہے۔ یہ دستاویز ہر چھ ماہ بعد اپ ڈیٹ کرکے صدر امریکا کو دکھائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے صدر و وزراء کو مطلع کیا جاتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ترجیحات کیا ہیں اور فی الوقت وہ کن عوامل پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

ماضی کی درج بالا دستاویزات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 2010ء کے بعد ہر چھ ماہی دستاویز میں ترکی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ یوں ترکی ان معدوے چند ممالک میں شامل ہوگیا جن کی امریکی ازحد جاسوسی کرتے ہیں۔

حتیٰ کہ ایک دستاویز میں ترکی کو وینزویلا سے بھی زیادہ اہمیت دی گئی جو امریکا کا کٹر مخالف ہے۔ دوسری دستاویز میں وہ کیوبا سے بھی آگے رکھا گیا۔ یہ حقائق عیاں کرتے ہیںکہ امریکی، ترکی سے انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے میں ازحد دلچسپی لیتے ہیں۔

ترکی کے معاملے میں سب سے پہلی امریکی انٹیلی جنس ترجیح یہ جاننا تھا کہ ترک لیڈر شپ کیا سوچ رہی ہے۔ وہ کس قسم کے عزائم رکھتی ہے۔ دوسری ترجیح ترک افواج اور ان کے انفراسٹرکچر سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنی تھی۔ جبکہ اس امر کو تیسری ترجیح قرار دیا گیا کہ ترک حکومت ایندھنی وسائل کی سکیورٹی کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن کی دستاویز انکشاف کرتی ہیں کہ این ایس اے 2006ء سے ترکی کے سیاست دانوں، جرنیلوں، مذہبی رہنمائوں، صنعت کاروں اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے کمپیوٹروں کی نگرانی میں مصروف ہے۔ این ایس اے میں اسی خفیہ منصوبے کو ’’ترکش سرج پروجیکٹ پلان‘‘ (Turkish Surge Project Plan) کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کی پیچیدگیوں اور وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ماہرین این ایس اے کو اسے عملی جامہ پہنانے میں چھ ماہ لگے۔ جب یہ پلان کامیابی سے مکمل ہوا، تو اس سے وابستہ امریکی ماہرین نے جشن منایا۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکی انٹیلی جنس نے ترک سفارت کاروں پر بھی نظر رکھی، خصوصاً جو امریکا و یورپی ممالک میں تعینات ہیں۔ 2010ء کی ایک خفیہ این ایس اے دستاویز خبر دیتی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ’’پائوڈر‘‘ (Powder) نامی منصوبے کے تحت واشنگٹن میں ترک سفارت خانے کی وسیع پیمانے یہ جاسوسی کرتی رہی۔ جبکہ اسی قسم کا ’’بلیک ہاک‘‘ (Blackhawk) نامی منصوبہ بھی شروع کیا گیا تاکہ اقوام متحدہ میں ترک سفیر کی تمام سرگرمیاں نوٹ ہوسکیں۔

این ایس اے اپنے جدید ترین آلات کی مدد سے نہ صرف واشنگٹن میں ترک سفارت خانے کے ٹیلی فون سسٹم میں جاگھسی بلکہ وہاں کمپیوٹر نیٹ ورک تک بھی پہنچ گئی۔ ترک کمپیوٹروں میں انسٹال اینٹی سپائی ویٹر پروگرام بھی امریکیوں کا راستہ نہیں روک سکے۔ این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ترک سفیر کے کمپیوٹر میں بھی ٹروجن سافٹ ویئر داخل کردیا۔ یہی نہیں، سنوڈن کی جمع کردہ دستاویزات افشا کرتی ہیں، این ایس اے اقوام متحدہ کے کمپیوٹر نیٹ ورک سے منسلک تمام ہارڈر ڈرائیو کاپی (نقل) کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ترک حکومت کی جاسوسی سے این ایس اے کو جو خفیہ معلومات ملتی، ان میں سے بیشتر برٹش، کینیڈین، آسٹریلین اور کیوی انٹیلی جنس کو بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ان پانچوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ’’پانچ آنکھیں‘‘ (Five Eyes) کے نام سے اپنا اتحاد بنا رکھا ہے۔

سنوڈن کی دستاویزات انکشاف کرتی ہیں کہ برطانوی خفیہ ایجنسی، جی سی ایچ کیو (GCHQ ) بھی ترک حکومت کی جاسوسی کرتی ہے۔ اس کا خاص نشانہ ترک وزراء ہیں۔ برطانوی ایجنٹ ان کی سیٹلائٹ فون کالیں ریکارڈ کرتے اور کمپیوٹروں میں جاگھستے ہیں۔

درج بالا ہوش ربا داستان افشا کرتی ہے کہ امریکی و یورپی ترک حکومت کے قومی راز چوری چھپے چُرانے میں مصروف ہیں۔ وہ ترکی کے دوست بنے بیٹھے ہیں، مگر حقیقتاً اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اسی منافقت کے متعلق ڈیڑھ سو سال قبل مشہور برطانوی مذہبی رہنما، فریڈرک وسیم رابرٹسن (1816ء۔1853ء) نے کہا تھا:

’’دنیا میں تین گناہ ایسے ہیں جن کی کوئی معافی نہیں… منافقت، فراڈ اور آمریت۔‘‘

ترکی کی اہمیت

عالم اسلام میں ترکی معاشی و عسکری لحاظ سے سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ دنیا میں 17 ویں بڑی معیشت کا حامل ہے۔ نیز بہ لحاظ آبادی بھی 17 واں بڑا ملک ہے۔ پھر یورپ‘ روس اور ایشیا کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے بھی اس کی تزویراتی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ انہی عوامل کی بنا پر عالمی طاقتیں اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ ترک ہی کو اہم سمجھتی ہیں۔

اپوزیشن کا ہنگامہ

ترک حکومت نے امریکی سفیر کو طلب کر کے این ایس اے کی جاسوسی پہ پُرزور احتجاج کیا،تاہم حزب اختلاف مطمئن نہ ہو سکی۔اس نے مطالبہ کیا کہ جرمنی کے مانند ترکی بھی اعلی امریکی افسر ملک بدر کر دے۔ترک اپوزیشن اس امر پہ بھی چراغ پا ہے کہ مقامی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیںاور انھوں نے امریکیوں ،جرمنوں اور برطانیوں کی جاسوسی روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔اس نے ترک انٹیلی جنس نظام کو کمزور وبودا قرار دیا۔

دوسری طرف ترکی میں یہ خبر بھی پھیل گئی کہ امریکی وجرمن اپنی جاسوسی کے ذریعے جان چکے ،طیب اردگان سمیت ترک حکومت میں شامل کئی وزرا خفیہ ’’سوئس اکائونٹس‘‘ رکھتے ہیں۔اور ان میں ترک لیڈروں کا کثیر سرمایہ جمع ہے۔اسی لیے ترک حکومت نے مغربی جاسوسی کا نہایت سنگین معاملہ دبانا چاہا اور اس پہ توجہ نہیں دی۔

عالمی جاسوسی مشینری

حالیہ زمانے میں جدید ترین آلات ‘ انٹرنیٹ‘ وائی فائی ٹیکنالوجی اور سمارٹ موبائل کی آمد نے جاسوسی کا دائرہ کار بہت پھیلا دیا ہے۔ امریکی ادیب ‘ ہورڈدین گولڈ کہتا ہے:

’’ایسی دنیا تیزی سے تشکیل پا رہی ہے جہاں ہر شے جاسوسی مشینری کا حصہ بن جائے گی۔‘‘ گویا تب ایک دوسرے کی جاسوسی کوئی خاص نہیں معمول کی بات بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔