چھوٹی خبر بڑی بات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 27 ستمبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

خبر آئی ہے کہ پارلیمنٹ لائبریری سے آئین پاکستان 1973 کا اصل مسودہ جس پر تمام اراکین پارلیمنٹ کے دستخط ثبت تھے چوری ہوگیا ہے۔ خبر پڑھنے والوں نے اس کو اہمیت نہیں دی یا پھر اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔کیونکہ اس معاملے کسی جانب سے کوئی بیان، ردعمل، مذمت، تبصرہ، بحث ومباحثہ، مضمون، اداریہ یا ٹاک شوز وغیرہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ سیاستدان اور ارکان پارلیمنٹ جن پر آئین کے امین اور محافظ ہونے کی کلیدی ذمے داری عائد ہوتی ہے ان سے کوئی توقع یا شکوہ کرنا تو بے کار ہے۔

آئین کا تقدس، تحفظ اور اس کے حوالے سے انھیں مخصوص مواقعوں پر مخصوص مقاصد کی خاطر مخصوص مطالب اور معنی کے ساتھ یاد آتے ہیں جس کے لیے وہ دستور پاکستان کو عوامی اجتماعات اور ٹاک شوز میں لہرا لہرا کر داد و تحسین حاصل کرتے ہیں۔ ورنہ وہ اسے بھولے رہتے ہیں اس سے انحراف کرتے بلکہ سب سے زیادہ پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کے ذریعے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنا پکڑے جانے پر سینہ زوری کرنا اور نااہل ہوجانے کے بعد دوبارہ منتخب ہوجانا ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ان کے ووٹرز کے اخلاقی انحطاط کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آئین پاکستان کے اصل مسودے کے غائب ہوجانے کی خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب اس سلسلے میں ایک سماجی تنظیم راہ راست کے چیئرمین کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست پر عدالت عالیہ سندھ نے چیف فیڈرل لا آفیسر کو جوابدہی کا نوٹس جاری کیا۔

آئینی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال قبل آئین پاکستان کا مسودہ چوری ہونے کی اطلاع پر اس تنظیم کے سربراہ نے ایف آئی اے کو اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے اس کے ذمے داران کے خلاف کارروائی کرنے اور اصل دستاویز برآمد کرنے کی درخواست دی تھی لیکن ایف آئی اے نے درخواست گزار کو عدالت سے رجوع کرکے حکم نامہ لانے کا کہہ کر کسی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر درخواست گزار نے سندھ ہائیکورٹ میں یہ آئینی درخواست دائر کی تھی۔ گزشتہ جمعرات کو اس درخواست پر سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو 13 اکتوبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے اصل مسودے کی چوری کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے یہ مسودہ قومی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

اس کا غائب ہوجانا سنگین قومی جرم ہے قومی اسمبلی کے تمام اراکین اور سیاسی جماعتوں نے اس متفقہ آئین کی حمایت کی تھی اور 10 اپریل1973 کو یہ آئین متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا ایوان صدر میں شاندار تقریب میں تمام اراکین نے اس پر دستخط کیے تھے اس وقت کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے وزیر اعظم کے اس مسودے پر دستخط کرائے تھے۔ 18 ویں ترمیم کے موقعے پر جب اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی نے اصل مسودہ طلب کیا تو انکشاف ہوا تھا کہ یہ مسودہ ریکارڈ سے غائب ہے۔ پارلیمنٹ کے ذرایع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔

قیام پاکستان کے 26 سال بعد ملک و قوم کو ملنے والا 1973 کے آئین کا اصل مسودہ 40 سال بعد ریکارڈ سے غائب ہوگیا یا کردیا گیا جس وقت یہ آئین منظور ہوا تو ملک میں پی پی پی کی حکومت تھی جو بجا طور پر اسے اپنے ایک بڑے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے اور جب اس کی چوری یا غائب ہونے کا انکشاف ہوا تو اس وقت بھی ملک میں پی پی پی ہی کی حکومت تھی۔

اتنے بڑے واقعے کے رونما ہونے اور ارباب اختیار اور ذمے داران کے علم میں آجانے کے بعد اس کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے تھی یہ دستاویز جن افراد کی تحویل اور ذمے داری میں تھی ان کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کرکے اصل مسودہ برآمد کرنے کی کوششیں ہونی چاہیے تھیں لیکن سال بھر سے زیادہ گزر جانے کے باوجود اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا گیا اگر موجودہ آئینی درخواست دائر نہ ہوتی تو یہ معاملہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا۔

چند دنوں پیشتر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے دوران بھی ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے جب تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگانے کا مکمل ریکارڈ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید اپنے ساتھ لے گئے تھے ریکارڈ غائب ہونے کی تحقیقات تو نہیں کی گئی تاہم وزارت دفاع سے رابطہ کیا گیا تھا مگر ریکارڈ نہیں مل سکا۔ ریکارڈ فراہم کرنے کے لیے کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا ۔ البتہ شوکت عزیز اور ان کی کابینہ نے جنرل پرویز مشرف کے احکام پر عمل کیا۔ مشرف کے ساتھ کوئی معاون کار بھی نہیں تھا۔

تحقیقاتی ٹیم کے پاس اس شخص کا نام بھی موجود نہیں تھا جو 3 نومبر کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ کا محافظ تھا اس سلسلے میں پرویز مشرف نے دیگر حکام کے ساتھ جو ملاقاتیں یا مشاورت کی اس کے بارے میں بھی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ ہماری قومی دستاویز اور قومی رازوں کا یہ حال ہے کہ بااثر افراد ہر قانون سے بالاتر ہیں ان کی کسی قانون شکنی پر کوئی قانون اور ادارہ حرکت میں آنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ملکی دفاع اور قومی رازوں کو افشا کرنے اور مبالغہ آرائی و دروغ گوئی سے ملک و قوم کو رسوا کرنے کے بڑے بڑے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں مگر جرم کے مرتکب افراد کا بال بیکا تک نہیں ہوتا ہے۔

اداروں اور افراد کے اس قسم کے رویوں کی وجہ سے بہت سے بڑے بڑے قومی جرائم عدالتوں تک بھی نہیں پہنچ پاتے اور جو پہنچتے ہیں وہ ان اداروں کی پشت پناہی یا غیر موثریت کی وجہ سے عدالتوں کا وقت ضایع کرنے اور اس کلچر کو مزید پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں اور اس کو بنیاد بناکر عوام کو عدالتوں اور آئین و قانون سے بدظن کرنے کی منظم سازشیں بھی کی جاتی ہیں۔

آئین پاکستان میں حب الوطنی کو ہر شہری کی بنیادی ذمے داری قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آئین کی پاسداری ہر پاکستانی شہری کی لازمی و بنیادی ذمے داری ہے چاہے وہ کسی خطے میں بھی رہتا ہو۔ صدر، وزیر اعظم سے لے کر عام رکن اسمبلی تک کے حلف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ آئین پاکستان کی حفاظت و دفاع کرے گا۔ اسلامی نظریہ جو تخلیق پاکستان کی بنیاد بنا اس کی حفاظت و پاسداری کرے گا اس پر سختی سے عمل پیرا ہوگا۔

قومی سطح کے کئی واقعات میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ارباب اختیار ملک سے باہر رہ کر آئین و قانون اور ملک کے تشخص اور دفاع سے کھیلتے ہیں اس کے لیے بیرونی طاقتوں کا سہارا لیتے ہیں ان کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور ملک کے اندر رہتے ہوئے اس کو پامال کرکے بیرونی طاقتوں کا سہارا لے کر قانون سے بچنے اور ملک سے فرار ہونے کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ حسین حقانی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

کچھ نادیدہ اندرونی و بیرونی قوتیں ایک منظم سازش کے تحت اس ملک، اس کے اداروں اور آئین کو ختم کرنے کے درپے ہیں جنھیں بدقسمتی سے ہر سطح پر سازشی اور ناعاقبت اندیش افراد میسر ہیں مجموعی طور پر قوم، قومی و سیاسی راہنما آئین کے تقاضوں کو فراموش کرچکے ہیں جن کی وجہ سے ملک و قوم اور قومی ادارے تباہی و تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب ملک اس کھیل کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔