تحریک انصاف کے سیاسی پتے

طلعت حسین  جمعـء 31 اکتوبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

پاکستان تحریک انصاف نے تین معاملات کو اپنی سیاست میں جوئے کے انداز میں چلایا ہے، یہ انہونی نہیں ہے۔ سیاسی لیڈران اپنے لیے مواقع پیدا کرنے کی کوشش میں بسا اوقات ایسے اقدام اٹھاتے ہیں جو اس وقت کسی منطق پر پورا اترتے نظر نہیں آتے لیکن جن سے آنیوالے دنوں میں توقعات سے بڑھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دھرنے کا آغاز ایک بازی کی طرح تھا۔ اس کے پیچھے سب کچھ داؤ پر لگانے کی دھن بھی کار فرما تھی اور یہ سوچ بھی کہ سیاسی فائدہ اتنا بڑا اور واضح ہو گا کہ وقتی تکلیف یا تنقید کو قوم اور پارٹی دونوں بھول جائیں گے۔ اگر نواز شریف گرا دیے جاتے تو یہ فائدہ حاصل ہو جاتا۔ مسلم لیگ اندر سے ٹوٹ جاتی، چند لوگ اسمبلیاں چھوڑتے، چند موجود رہتے اور باقی سب شریف خاندان کی سیاست میں سے رخصتی کو اپنے لیے اشارہ سمجھتے ہوئے آگے کی سوچتے۔

عبوری حکومت اور نئے انتخابات اس وقت تحریک انصاف کو پنجاب میں بڑی کامیابی سے ہمکنار کر دیتے جس کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریت، ق لیگ اور دوسرے ہم خیال گروپوں کی مدد سے مکمل طاقت میں تبدیل ہو جاتی۔ سینیٹ کے انتخابات قومی اسمبلی میں نمایندگی کے وژن کے مطابق ہوتے اور یوں پی ٹی آئی دونوں ایوانوں میں آرام دہ سیاسی حالت کے ساتھ ساتھ عوام میں شریف خاندان کو گرانے کی ٹرافی اٹھا کر خود کو مزید مقبولیت سے ہمکنار کرتی۔ مگر اس بازی کو جیتنے کے لیے شریف برادران کا طاقت سے نکالا جانا اور مسلم لیگ ن کا پیٹنا ضروری تھا۔ یہ دونوں مفروضے یا اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ لہذا بڑا جواب چھوٹے چھوٹے جووؤں میں بٹ گیا ہے۔ انتخابات کو مصنوعی اور چوری شدہ قرار دینا اس فہرست میں سے ایک ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئینی طور پر اس بساط کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگر آپ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم کیے ہوئے بینچ کے فیصلے کو پڑھیں تو واضح ہو جائے گا کہ وہ آئینی سہولت جس پر کافی عرصے سے تکیہ کیا جا رہا تھا ، 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے مہیا نہیں کی گئی۔ جج صاحبان نے کیا کہا آپ کی یاددہانی کے لیے خلاصہ درج کر رہا ہوں۔

’’سپریم کورٹ نے کہا کہ انتخابات 2013ء میں دھاندلی کے مقدمے کا تعلق حقائق اور ثبوتوں کی جانچ پڑتال سے ہے جب کہ براہ راست انکوائری کرانا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں،الیکشن تنازعات کے حل کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 225 میں ہے۔درخواستیں منظور کرنے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے،انھیں سنے بغیر کیسے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ معاملہ حقائق کے تنازعے کی انکوائری کا ہے جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں جب کہ عدالت آئین کے آرٹیکل225کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ ناقص سیاہی کی خریداری کا ذمے دار ممبر الیکشن کمیشن ہے،اس کے خلاف کاروائی کا حکم دیا جائے،یہ ممبر کون ہے ؟ اس کا تو انکوائری سے ہی معلوم ہو گا جس کے لیے ثبوت بھی درکار ہونگے۔کیا یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے؟ اگر آپ کی استدعا منظور کر لی جائے تو اس سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام ممبران ڈی سیٹ ہو جائیں گے مگر انھیں نوٹس تک نہیں کیے گئے نہ ہی آپ نے انھیں فریق بنایا۔عدالت انھیں سنے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے جب کہ وہ متاثرہ فریق بھی ہونگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے آرٹیکل (3) 184 کے تحت درخواست دائر کی ہے جب کہ آرٹیکل 225 کے تحت الیکشن تنازعہ کے حل کے دو طریقہ کار ہیں۔ایک یہ کہ مخالف امیدوار ٹریبیونل میں درخواست دائر کرے اور دوسرا  ہائیکورٹ سے رجوع کرے۔بی بی سی کے متعلق عدالت نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل225میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق جو شکایات ہیں وہ الیکشن ٹریبیونل میں جائیں گی۔

آئین کی پاسداری کرنا سپریم کورٹ کی اولین ذمے داری ہے اور آئین کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان درخواستوں کے ساتھ کوئی ثبوت لف نہیں کیے گئے اور عدالتیں محض الزامات کو ثبوت کے طور پر نہیں لے سکتیں۔اس بات کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے کہ انتخابات سے پہلے کیے جانے والے انتظامات بد نیتی پر مبنی تھے؟ارکان اسمبلی کو سنے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں دے سکتے۔دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کروانا سپریم کورٹ کا کام ہے اور نہ اس ضمن میں اس کا کوئی کردار ہے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹیشنر کیسے ثابت کریں گے انتخابات سے پہلے کیے جانے والے انتظامات بد نیتی پر مبنی تھے۔درخواست میں سوائے الزامات کے کچھ نہیں ہے،الزامات کو ریکارڈ نہیں سمجھ سکتے،الزامات کو حقائق سمجھ کر تحقیقات کرانا سپریم کورٹ کا کام نہیں‘‘۔۔۔۔

کسی کو یہ فیصلہ پسند ہو یا نہ جو عدالت عظمی نے پچھلے انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کا تعین کرنے کے لیے واضح کر دیا ہے کہ انتخابی ٹریبونل کے پاس جائیں گے تو ہی بات بنے گی ۔ عدالت عظمی اس سیاسی دنگل کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہے ۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور ق لیگ کے علاوہ کوئی جماعت 2013ء کے انتخابات ختم کر کے فوری نئے انتخابات کرانے کے حق میں نہیں ہے ۔

عمران خان نے امیر جماعت اسلامی کے خلاف شدید غصے کا اظہار اس وجہ سے بھی کیا ہے کہ ان کی نظر میں جماعت اسلامی 2013ء  کے انتخابات کو تسلیم کر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنی اس وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہی جس کی توقع عمران خان کو پچھلے کئی مہینوں سے تھی ۔ امیر جماعت اسلامی کے ساتھ تقریبا ہر نشست میں عمران خان یہ گلہ کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ وہ نظام کے خلاف اپنے کارکنان کو اکساتے ہیں اور سراج الحق صاحب نظام کے تسلسل کا ڈھنڈورا پیٹ کر کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔ اسے شکایت کے زاویے سے دیکھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ سراج الحق کی طرف سے موجودہ سیاسی ہنگامے کو ’’ سیاسی نیلوفر ‘‘ کہنے پر عمران خان غصے میں کیو ں آ گئے ۔

جماعت اسلامی وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہی ہے یا بیچ کھڑی ہے ۔ 2013ء کے بعد کے انتخابی عمل کو جاری رکھنے کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے اس اتحادی کا نقطہ نظر ان تمام جماعتوں سے مطابقت رکھتا ہے جو تمام اختلافات کے باوجود فوری انتخابات کے مطالبے کی حمایت نہیں کر رہے ۔لہذا اب تحریک انصاف کو ایک اور بازی کھیلنا پڑ رہی ہے جس میں وہ مستعفی ہو کر سڑکوں پر احتجاجی عمل کو چلانے کی پلاننگ کر رہی ہے ۔

اس سلسلے میں ہمیں بڑے جلسوں اور عوامی احتجاج میں فرق یاد رکھنا ہو گا ۔ جم غفیر (جن کی تعداد اپنی مرضی کے مطابق بڑھا چڑھا کر یا کم کر سکتے ہیں) جلسہ گاہوں میں وقتی طور پر خبر بھی بن جاتی ہے۔ اگلے دو دن ان کا تبصرہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن پھر وہ ذہن سے نکل جاتا ہے۔ لاہور کا جلسہ، ملتان کا جلسہ، اس سے پہلے بہاولپور کا جلسہ یا بعد میں سر گودھا کا جلسہ یہ سب جب ہوئے تب اہم تھے۔ مگر پھر یہ ختم ہو گئے اور اس وقت حکومت حتیٰ کہ تحریک انصاف خود بھی ان پر غور و خوض نہیں کر رہی۔ احتجاجی جم جمگٹے اور قسم کے ہوتے ہیں وہ مسلسل سڑکوں پر رہ کر یاد دہانی کرواتے ہیں۔

ان کی وجہ سے ہونے والا خون خرابہ وہ ایندھن فراہم کرتا ہے جو موثر احتجاج کی ایک شکل بنتا ہے۔ تحریک انصاف نے بڑے جلسے کر کے دیکھ لیے۔ دھرنے کی طرح یہ بھی نکالنے کا باعث نہیں بنے۔ اب عمران خان اپنی جماعت کو مسلسل احتجاج کی ڈگر پر لا رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں استعفوں کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اپنے عہدے کے تقدس کا خیال کرنا چاہے تھا۔ تحریک انصاف کی طرف سے دیے گئے استعفے منظور نہ کرنے کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہے۔ جو وضاحت دی تھی وہ مسلسل تنازعے کی وجہ سے بے محل لگتی ہے اس کو چھوڑنا ہی ہو گا۔ استعفے قبول کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اس کے بعد ضمنی انتخابات کی تاریخ سامنے آئے گی۔ تحریک انصاف ان کا بائیکاٹ کرے گی۔ اگرچہ ق لیگ اور دوسری جماعتیں اپنے گھوڑے کھل کر اس ریس میں ڈالیں گے۔ بالواسطہ طور پر مختلف امیدواروں کی حمایت کے باوجود تحریک انصاف خود کو موجودہ انتخابی عمل سے باہر لے جا رہی ہے۔ یہ دھرنے سے بھی بڑا جوا ہے لیکن یہ کھیلنے کی ضرورت نہ پڑتی اگر 14 اگست کو کھیلا جانے والا پتا کامیاب ہو جاتا۔ اس کی عدم کامیابی نے اس پتے کو کھیلنے کی مجبوری پیدا کی۔ دیکھتے ہیں اب جو پتا کھیلا جا رہا ہے وہ کیا رنگ لائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔