تحریک انصاف کا نیا لائحہ عمل

طلعت حسین  جمعـء 7 نومبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ عمران خان نے جو پریس کانفرنس کی اس سے ان کے سیاسی لائحہ عمل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پریس کانفرنس میں انھوں نے جو باتیں کی ان کا خلاصہ یوں ہے۔

’’عمران خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سپریم کورٹ سے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرانے کے لیے بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کرا سکتی ہے مگر اس میں مخصوص مدت ضرور مقرر ہونی چاہیے۔ عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ہوتے ہوئے دھاندلی کی شفاف تحقیقات ممکن نہیں حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، وہ اپنا دھرنا کسی صورت ختم نہیں کریں گے۔

کتنی ہی انتخابی اصلاحات کر لی جائیں جب تک ذمے داروں کا احتساب نہیں ہوتا دھاندلی ختم نہیں ہو سکتی۔ ہم نے کسی صورت ہار نہیں ماننی بلکہ آخری بال تک لڑنا ہے، اب پوری قوم میرے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ہم اپنے حقوق کے لیے ظالموں کے سامنے کھڑے ہیں۔ ایاز صادق سٹے آرڈر کے پیچھے نہ چھپیں، اگر وہ واقعی الیکشن جیتے ہیں تو ڈر کس بات کا ہے وہ میدان میں آئیں لیکن اگر ایاز صادق ہار گئے تو نواز شریف کو بھی استعفی دینا ہو گاـ‘‘۔

مگر ان کے برابر بیٹھے ہوئے اور خیبر پختونخوا  میں اتحادی جماعت کے سربراہ کا بیان عمران خان سے کہیں مختلف تھا۔ ان کے مطابق نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کی گنجائش موجود ہے لیکن انتخابات کے نتائج کو اکھاڑ کر نئی حکومت سازی کے عمل کا آغاز موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ جس روز عمران خان نے یہ پریس کانفرنس کی اسی دن خیبر پختونخوا کے چیف منسٹر پرویز خٹک پولیو سے متعلق وزراء اعلی کی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شریک ہوئے۔

عام نظر سے دیکھیں تو شرکت غیر معمولی نہیں تھی۔ سیاسی اختلافات قومی ضروریات سے اہم نہیں ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کے سیاسی تناظر کے پس منظر میں اس شرکت کا جائزہ لیا جائے تو یہ غیر معمولی خبر کے زمرے میں آتی ہے۔ پرویز خٹک عام وزیر اعلی نہیں ہیں۔ انھوں نے موجودہ حکومت کو کان سے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش میں بھر پور شرکت کی۔ اگست میں ہونے والی اس کوشش میں صوبے کے تمام وسائل کو بروئے کار لایا گیا۔ پشاور میں حکومت کرنے کی ذمے داری کو موخر کر کے گو نواز گو کے ایجنڈے کو بھر پور انداز سے آگے بڑھانے میں پرویز خٹک پیش پیش رہے۔

عمران خان کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر انھوں نے با ر ہا یہ واضح اشارہ دیا کہ وہ نہ وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم مانتے ہیں اور نہ اس حکومت کو مانتے ہیں۔ ’ گو نواز گو ‘ سے لے کر ’ پولیو میٹنگ ‘ تک پرویز خٹک نے اچھی خاصی تبدیلی لائی ہے۔ بلکہ یو ں کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا یو ٹرن لیا ہے۔ اگرچہ بعد میں انھوں نے بیانات کے ذریعے سیاسی اسٹیرنگ کو دوبارہ سے گھمانے کی کوشش کی مگر ان کی طرف سے بیان بڑا واضح ہے۔ وہ اس حکومت کے فوری اختتام کے بارے میں کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ لہذا اصل کام پر واپس جانے کے لیے رضا مند ہو چکے ہیں۔

کیا عمران خان واقعتاً یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس دسمبر تک نواز شریف کا استعفی ہاتھ میں لے کر ویسے ہی لہرائیں گے جیسے انھوں نے 1992ء کا ورلڈ کپ ہوا میں بلند کیا تھا؟ تحریک انصاف کی پارٹی کے ذرایع میں سے ایک حلقے کا خیال ہے کہ ان کا لیڈر کسی نہ کسی وجہ سے اب بھی پر امید ہے۔ ان ذرایع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے تیس نومبر کے جلسے کے لیے ان کو دو لاکھ افراد لانے کا ہدف دیا ہے۔

پلاننگ کے مطابق یہ افراد اسلام آباد کی ہر اہم سڑک کو بھر دیں گے۔ یہ ابھی طے نہیں ہوا لیکن کچھ ایسی بات کی جا رہی ہے کہ کامیاب جلسے کے بعد یا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں پہیہ جام کرنے والے جلوس نکالے جائیں گے۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ ان سے حکومت پریشان ہو جائے گی اور اگر ہنگامہ بڑھا تو تنگ آ کر کوئی نہ کوئی قوت استعفے کا مطالبہ کر ہی دے گی۔

اگر عمران خان کی پلاننگ اس قسم کی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اگست میں کی جانے والی کوشش کو پھر دہرانا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ جن حالات میں یہ کوشش کرنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے وہ یکسر مختلف ہے۔ اگست میں عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کا دعوی عددی اعتبار سے تو کمزور تھا لیکن ذرایع ابلاغ اور ان کے پیچھے خاموش قوتوں کی معاونت اور حکومت کی بدترین بے وقوفیوں نے اس کو وہ نیا پن یقیناً دیا تھا جو شریف خاندان کی سیاسی باگ ڈور پرگرفت کو تہس نہس کر سکتا تھا۔

عمران خان اور طاہر القادری کی تقاریر اور اہم معاملات پر ان کے مکالمے نظام اور حکومت کے ان تمام نقائص کو ایسے انداز سے واضح کرنے میں کامیاب ہوئے جو یقینا بے مثال ہیں۔ مگر تمام تر زور و شور کے باوجود وہ کلیدی ہدف جو قائدین انقلاب لے کر چلے تھے حاصل نہ ہو پایا۔ اس کے بعد کا قصہ سب کو معلوم ہے ۔

ایک ایسی حکومت جو اپنی کوتاہ اندیشیوں اور بدترین بدانتظامیوں کے باعث ڈیڑھ سال میں بری طرح لڑ کھڑا رہی تھی اور شاید اگلے ایک سال میں خود ہی گر جاتی اب پارلیمانی جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار بن کر سامنے آ گئی ہے۔ انداز حکمرانی اگرچہ ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا لیکن اپنے بچاؤ اور سیاسی لڑائی کی تمام تدابیر کر چکی ہے ۔ عمران خان تین سو سے کچھ زیادہ تقاریر کے بعد اب میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔

ان کے دھرنے کے گرد کنٹینر کا حصار ہے ۔ ان کا کہا اب خبر نہیں بنتا۔ ان حالات میں دوبارہ سے لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں لانا اور اس کے بعد وہی کا م کروانے کی امید باندھنا شاید حقیقت پسندانہ رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ شہروں کو بند کرنے کا لائحہ عمل بھی قابل عمل نہیں لگتا۔ کتنے شہروں کو کتنے دن اور کیسے بند کریں گے۔ سول نا فرمانی کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ بلوں کو جلانے کی تحریک کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ  درجنوں دوسرے ایسے اہداف ہیں جو اس وجہ سے متعین کیے گئے تھے کہ قومی سیاسی تحریک عمران خان کے کہنے پر جنم لے گی اور ان کی خواہشات کے مطابق جلدی سے بڑی ہو گی جو موجودہ نظام کے کھنڈر کو شاندار محل میں تبدیل کروائے گی۔ ا ن حالات میں عمران خان کی سیاسی حکمت عملی صرف دو صورتوں میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

ایک یہ کہ حکومت ان کو گرفتار کر ے اور ان کے احتجاج کو لاٹھیاں مار کر ختم کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری یہ کہ نواز شریف ایک دن صبح اٹھ کر فیصلہ کریں کہ انھوں نے وزیر اعظم نہیں رہنا اور وہ اپنے استعفے کی ایک کاپی عمران خان کو ارسال کر دیں۔ فی الحال یہ دونوں صورتیں بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہیں۔ مگر چوں کہ ہمارے ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا کسی غیر معمولی اور غیر قدرتی خبر بن جانے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس امکان کو اگر آپ ذہن سے نکال دیں تو عمران خان اپنی جماعت کو ایک مرتبہ پھر ایک پر خطر اور کٹھن رستے پر ڈال رہے ہیں جو ان کو منزل سے دور لے جا سکتا ہے قریب نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔