پاکستان ایک نظر میں تم جیو ہزاروں سال

صدیس روزانہ ضد کرتا ہے کہ اماں کو بلائیں اور میں اسے یہ کہہ کرٹال دیتا ہوں کہ وہ گھرمیں تمہارا انتظارکررہی ہیں۔


آصف محمود November 13, 2014
صدیس روزانہ ضد کرتا ہے کہ اماں کو بلائیں میں نے لوری سننی ہے اورمیں اسے یہ کہہ کرٹال دیتا ہوں کہ وہ گھرمیں تمہاراانتظارکررہی ہیں۔ فوٹو آصف محمود

اسپتال کے ہال میں جمع لوگ اس بچے کو سالگرہ کی مبارکباد دے رہے تھے،صدیس الرحمن آج گھرکی بجائے اسپتال میں اپنی پانچویں سالگرہ منارہا تھا۔اس معصوم بچے کا تعلق پشاورسے ہے جو 2 نومبر کے دن واہگہ باڈر اپنی فیملی کیساتھ پریڈ دیکھنے آیا اور پھروہاں ہونے والے خودکش حملے میں زخمی ہوگیا۔ اس سانحے نے صرف صدیس الرحمن کو ہی زخمی نہیں کیا بلکہ اس کی ماں اوردوبھائی بھی چھین لئے، جبکہ اس کے والد اورایک بہن زخمی ہوئے تھے۔

اسپتال میں اپنی پانچویں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے صدیس الرحمن کافی سہما اور ڈرا ہوا نظر آرہا تھا۔ شاید یہ ا س کی پہلی سالگرہ تھی جو وہ گھرسے باہر یہاں اسپتال میں منائی جارہی تھی،لیکن یہاں اسے محبت کرنے والی شفیق ماں نظرنہیں آئی، شرارت کرنے والے دوبھائی اوربہن بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔اس کے لئے یہاں موجود ہرچہرہ اجنبی تھا۔اس بھیڑ میں وہ صرف ایک چہرے کو پہچانتا تھا اوروہ تھا اس کے والد صادق خان جو بیٹے کو حوصلہ اوردلاسہ دے رہے تھے ۔ معصوم صدیس الرحمن شاید یہ سوچ رہا ہوگا کہ گھرمیں اس کی پیاری ماں باہیں پھیلائے اس کا انتظارکررہی ہوگی اورجب وہ گھرجائے گا توماں اسے سینے سے لگالے گی، دونوں بھائی بھی شاید اس لئے نہیں آئے کہ وہ اسے سالگرہ پرکوئی سرپرائزدینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ننھا فرشتہ کیا جانے کہ گودمیں لے کر اسے لوریاں سنانے والی ماں اور شرارتیں کرنے والے بھائی اب وہاں جاچکے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کرنہیں آتا ہے ۔

صدیس الرحمن کی سالگرہ اسپتال منانے کا فیصلہ اسپتال انتظامیہ نے ہی کیا تھا ،وہ اس معصوم بچے کے ذہن پرچھائے اس خوفناک سانحے کا خوف ختم کرنا چاہتے تھے۔ کیک کاٹنے کے بعد جب سب نے صدیس الرحمن کو مبارکباد اورتحفے دیئے گئے تووہ خوش ہوگیا ،لیکن وہ کوئی بات نہیں کرپارہا تھا ، میں نے جب بھی اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی وہ بس خاموش نظروں سے میری طرف دیکھتا رہتا، بڑی مشکل سے یہ بچہ اپنے منہ سے صرف '' پاکستان زندہ باد '' کے الفاظ ادا کر سکا۔ اس معصوم بچے کے منہ سے یہ الفاظ سن کراسپتال کا ہال ایک بار پھرتالیوں سے گونج اٹھا ، اس بچے نے ثابت کردیا کہ پاکستانی دہشت گردوں سے ڈرنے والے نہیں ،ہم زندہ اور بہادر قوم ہیں۔

صدیس الرحمن کے والد نے بتایا کہ اس سانحے نے اس کی بیوی اوردو بیٹے چھین لئے ہیں لیکن اللہ تعالی کی مہربانی سے اس کا ایک بیٹا ،بیٹی اوراس کی خودکی جان بچ گئی ، وہ اسے اللہ کی رضا سمجھتا ہے۔ میں نے صادق خان سے پوچھا کہ جب صدیس گھرجائے گا تو آپ اسے کیا بتائیں گے کہ اس کی ماں اور بھائی کہاں ہیں؟، میرے سوال پر صادق کی آواز بھر آئی ، وہ کہنے لگا صدیس اپنی ماں سے بہت پیارکرتا ہے ،اس کے بغیرتو اسے نیند بھی نہیں آتی ،روزانہ رات کو ماں سے لوری یا کہانی سنتا ،جب سے اسپتال میں ہے روزانہ ضد کرتا ہے کہ اماں کو بلائیں میں نے لوری سننی ہے اورمیں اسے یہ کہہ کرٹال دیتا ہوں کہ وہ گھرمیں تمہاراانتظارکررہی ہیں، جب گھرجاؤ گے توبہت سی کہانیاں سن لینا اوریہ مطمئن ہوجاتا ہے، لیکن اب جب گھرجائے گا تو آہستہ آہستہ سمجھ جائے گا، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے ۔ننھا صدیس باپ کی آنکھوں میں آنسودیکھ کرپھرافسردہ ہوگیا اورکہنے لگا پاپاآپ میری سالگرہ پرکیوں رورہے ہیں۔یہ سننتے ہی صادق خان نے بچے کو سینے لگالیا۔

واہگہ باڈر پرہونے والے دھماکے نے صدیس الرحمن کی طرح نجانے کتنے بچوں سے ان کی مائیں چھیں لیں ،کتنی بہنوں کے بھائی اس درندگی کا نشانہ بنے اورکتنے معصوموں کے سرسے ان کے باپ کا سایہ اٹھ گیا،صدیس الرحمن جیسے جیسے بڑاہوتا جائے گا اس کے ذہن سے اس دھماکے کا خوف کم ہوتا جائیگا لیکن ماں اوربھائیوں کی جدائی کا غم ہمیشہ اسے رلاتا رہے گا،اس سے پہلے کہ یہاں ماحول مزید جذباتی ہوتا اورہم ان کے زخموں کو تازہ کرتے، ہم نے وہاں سے رخصت ہونا ہی مناسب سمجھا۔ میں صدیس الرحمن کو یہ دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آیا کہ؛

'' تم جیو ہزاروں سال، ہے یہی آرزو ''

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں